مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دو سوالوں کے جواب ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض احباب اور قارئین اکثر دو باتیں پوچھتے ہیں، اولاً یہ کہ طبقاتی نظام کی چیرہ دستیوں سے نجات کی صورت کیا ہوسکتی ہے نیز یہ کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ادارے اور محکمے دستوری و قانونی حدود میں رہ کر فرائض ادا کریں؟

ثانیاً آپ روزانہ کی بنیاد پر لکھتے ہیں اس پر ملی داد اور ہوتی تنقید کو ایک طرف رکھ کر بتائیں یہ سب لکھنے کا کیا فائدہ ہوا۔ کیا کسی نے اس کا اثر قبول کیا، تبدیلی کی کوئی صورت نہیں یہاں تو چراغ سلسلہ وار بجھتے چلے جارہے ہیں۔

طالب علم کو اجازت دیجئے دوسری بات کا جواب پہلے عرض کردوں۔ چند دن قبل تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کا خط اور جوابی معروضات اپنے کالم میں شامل کئے۔ اس کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جدید انصافی نے کہا، جیالوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود بات گھڑتے ہیں اور پھر کہانی لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔

پچھلی نصف صدی کے دوران مجھے دو باتیں اکثر سننا پڑتی ہیں۔ تم جیالے ہو، تم پٹھو اور یہ کہ تم شیعہ ہو، میں پی پی پی، اے این پی اور قوم پرستوں کے لئے اپنی محبت کبھی چھپا نہیں پایا۔ البتہ میں ان میں سے کسی کا باضابطہ رکن نہیں ہوں بہت سارے دوسرے لکھنے والوں کی طرح ایک رائے دہندہ کے طور پر کسی جماعت کے لئے ہمدردی فطری امر ہے۔

منافقت یہ ہوگی کہ اپنے ممدوحین کی غلطیوں کی پردہ پوشی کی جائے۔ جدید انصافی اور سیاسی مسافر دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ روئے زمین کے پاکستانی حصے میں بس وہ ہی سچے اور ان کا لیڈر آخری امید ہے۔

ایک سے زائد بار عرض کرچکاکہ کم از کم میں کسی شخص یا لیڈر کو آخری امید سمجھنے کی بیماری میں کبھی مبتلا نہیں ہوا۔

جو لکھتا ہوں یہ سمجھ کر لکھتا ہوں کہ یہ تحریر نویس کے طور پر میرا فرض ہے۔ میری روزی روٹی کا ذریعہ ہی اداریہ نویسی اور کالم نگاری ہے دوسرا کوئی کام میں سیکھ نہیں پایا۔

تحریر نویس کا کام تاریخ کے گھٹالوں کے ساتھ واقعات کی درست تفہیم تجزیہ اور آراء لکھنا ہے۔ اس میں نفع نقصان مدنظر ہوتے ہیں نہ ہی اپنی بات کو حرف آخر کہنے سمجھنے کا جنون۔ پچھلی نصف صدی کے دوران کھلی آنکھوں سے جو دیکھا اور دیکھنے سنے کی روشنی میں معروضات پیش کرتا ہوں۔ مطمئن ہوں کہ اپنی بات کہنے کا حوصلہ ہے۔ ہمارا کام لوگوں کے سامنے کسی بھی معاملے کے دونوں پہلو رکھنا ہے نہ کہ ان پر اپنی آراء مسلط کرنا۔

ہم جو کہہ لکھ سکتے ہیں یہی کافی ہے۔

اب آیئے پہلی بات کی طرف۔ طبقاتی نظام کی چیرہ دستیوں اور حدود سے تجاوز سے بنی صورتحال سے کیسے نجات مل سکتی ہے۔ اس کے لئے پہلا کام سیاسی جماعتوں کا ہے وہ تابعداروں کے غول بڑھانے کی بجائے کارکن سازی پر توجہ دیں۔ سیاسی کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں تابعداروں کے غول وقتی مفادات کے لئے کسی بھی جماعت میں بھرتی ہوتے ہیں اور پھر ساری عمر بہ حالت پرواز میں رہتے ہیں یعنی

’’جدھر ویکھیاں چوپڑیاں اُدھر لائیاں دروکڑیاں‘‘۔

ایک دو یا پانچ سات مفاد پرست ہوں تو ان کی نشاندہی کی جائے۔ آپ پچھلے 23سال پر ایک گہری نگاہ ڈال لیجئے سیاسی مسافروں کے چہرے قطار اندر قطار سکرین پر ابھرنے لگیں گے۔ سیاسی مسافروں کے لئے سیاسی جماعتوں کے دروازے شب و روز کھلے اس لئے رہتے ہیں کہ ہم طبقاتی نظام کی محافظ طبقاتی جمہوریت سے عوامی جمہوریت کے نتائج کی توقع کرتے ہیں۔

خود سیاسی جماعتوں کے اندر تنظیم سازی میں جمہوری عمل کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے لئے سیاسی کارکنوں کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری بات ہماری خواب پرستی ہے کسی ایک شخص کے وقتی جذباتی بیان پر واہ واہ کرتے اسے ہیرو بنادیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسے کسی شخص نے ریاست کے بلوچوں، سندھیوں، پشتونوں اور دوسروں سے غیرانسانی سلوک پر آواز بلند کی؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اس نے جس معاملے پر آواز بلند کرکے داد سمیٹی وہ معاملہ انسانی حقوق سے زیادہ طبقاتی تھا؟

اس جملہ معترضہ کو ایک طرف رکھئے۔ میں عرض کرتا ہوں جبروستم اور طبقاتی نظام سے نجات سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اسی صورت دلاسکتی ہیں کہ وہ پہلے کارکن سازی کریں۔ داخلی جمہوریت کی ضرورت کو سمجھیں۔ اپنے منشور پر عمل کے لئے سنجیدہ ہوں۔ حصول اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی چوبداری کی بجائے عوام پر بھروسہ کریں۔

جواباً عوام ان پر بھروسہ کریں گے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیاسی مسافروں کے لئے اپنے دروازے بند کریں۔ بالفرض وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کا جماعت تبدیل کرلینا غلط نہیں تو پھر بھی کم از کم پارٹی بدلنے والے کو تین سال تک کوئی پارٹی عہدہ نہ دیں اور ایک مدت کے لئے اپنا امیدوار نہ بنائیں۔

سیاسی جماعتوں کو انتخابی اخراجات میں خطرناک حد تک ہوئے اضافے کو کم کرانے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ درمیانے طبقوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ فہم لوگ بھی ان کے توسط سے انتخابی عمل میں شریک ہوسکیں۔

اس ملک میں خواتین کی نصف آبادی ہے مخصوص پسماندہ فہم اگر خواتین کو مساوی نمائندگی دینے سے روکتی ہے تب بھی سیاسی جماعتیں اپنے تنظیمی ڈھانچوں اور منتخب اداروں کیلئے خواتین کو 25فیصد نمائندگی دینے کا اصول اپنائیں۔ منتخب اداروں میں حقیقی محنت کشوں اور کسانوں کو نمائندگی ملنی چاہیے۔

میں مندرجہ بالا تجاویز کو حقیقت پسندانہ سوچ کا مظہر سمجھتا ہوں۔ بات تلخ ہے لیکن عرض کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی چوبداری ترک کرنا ہوگی۔ فقط یہی نہیں دستور کو روندنے اور پارلیمنٹ کے گریبان سے الجھنے کے شوقینوں کو بھی کینڈے میں رکھنے کے لئے جرات رندانہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

سیاسی اور دستوری تنازعات کے لئے وفاقی دستوری عدالت ہونی چاہیے۔ عدلیہ کے مالیاتی نظام کا دوسرے اداروں اور محکموں کی طرح آڈٹ ہونا چاہیے اور یہ آڈٹ آڈیٹر جنرل پاکستان کی سالانہ رپورٹ کا حصہ ہو۔ اسی طرح دفاعی بجٹ پر بھی پارلیمنٹ میں بحث بہت ضروری ہے۔ عوام کو علم ہونا چاہیے کہ ہم نے اب تک قرضوں سے دفاعی عیاشی کتنی کی۔ خارجہ پالیسی راولپنڈی سے بذریعہ فیکس یا ای میل نازل نہ ہو بلکہ منتخب اداروں میں وضع کی جائے۔

پڑوسیوں سے تعلقات اور تجارت ہر دو کو ترجیح دی جائے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ریاستوں کے تعلقات مذاہب و عقیدوں پر نہیں اپنے مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔

مکرر عرض کردوں مجھ سے تو یہ پوشیدہ نہیں کہ اس ملک میں دستور کو کون روندتا ہے اور پارلیمنٹ کے گریبان سے دستوری تشریحات کے نام پر کون کھیلتا ہے۔ ہے تو خواب جیسی بات لیکن میری رائے یہی ہے کہ چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز اور پارلیمنٹ کی مساوری نمائندگی کی حامل ایک کمیٹی بننے چاہیے۔

یہ کمیٹی مسلح افواج کے سربراہوں، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں، صوبائی گورنرز کی تقرری کثرت رائے سے کرے محض تقرری ہی نہ کرے بلکہ اس منظوری سے قبل منجی پیڑی ٹھوک کر چھان بین کرے۔

میری رائے یہی ہے کہ اگر عوام پر ا عتماد کے ساتھ سیاسی جماعتیں یہ کام کرلیں تو دستور کو روندنے والوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے گریبان سے کھیلنے والوں کو ان کی حدو میں رکھا جاسکتا ہے۔

اسی طرح خودانحصاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کھانے پینے کی وہ اشیا جو لگژری آئٹم میں آتی ہیں کم ازکم تین سے پانچ سال کے لئے ان کے منگوانے پر پابندی لگائی جائے۔ کیا ستم ہے کہ یہاں عام آدمی کو روٹی نہیں ملتی اور 17 سے 25 کروڑ ڈالر کی سالانہ جانوروں کی خوراک بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہے۔ ذرا ولایتی خوراک کھانے والے جانوروں کے دیسی مالکان سے حساب تو کیجئے جتنی محبت سے یہ اپنے پالتو جانوروں کی خوراک بیرون ملک سے منگواتے ہیں اتنی محبت سے ٹیکس بھی دیتے ہیں ؟ ۔

پچھلے کم از کم پانچ سال کے دوران بند ہونے والے صنعتی اداروں کی بحالی کا ہنگامی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سٹیل مل پاکستان میں ازسرنو پیدااوری عمل شروع کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔

سبسڈی صرف عام آدمی کے لئے نہیں محکموں، اداروں، فائونڈیشنوں وغیرہ کے لئے بھی بند ہونی چاہیے۔ ایک قدم آگے بڑھ کر دستور میں دیئے گئے شہری، سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق سے متصادم نظریات کی ترویج پر پابندی لگائیں۔

تکفیر کو سنگین جرم قرار دیجئے۔ آپ کو آج کے کالم میں کی گئی باتیں دیوانے کی بڑ یا جاگتی آنکھ کا خواب لگیں گی لیکن سچ یہ ہے کہ اگر ہم واقعی جغرافیائی شناخت کے ساتھ زندہ رہنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ان پر غور کرنے اور آواز سے آواز ملانے کی ضرورت ہے۔

یہ کالم حرف آخر ہے نہ الہامی ہدایت۔ ایک رائے دہندہ اور تحریر نویس کی سوچ پر مبنی ہے۔ آپ اپنی تجاویز سامنے لائیں ہم سب مل کر ہی سیاسی جماعتوں کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی چوبداری چھوڑ کر عوام پر اعتماد کریں اور پارلیمنٹ کے گربیان سے کھیلنے والوں کو ان کی اوقات میں رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: