اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مارکسزم پر آپ بات کر سکتے ہیں۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارکسزم انیسویں صدی کے وسط میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلس کا وضع کردہ ایک نظریاتی نظام ہے۔ یہ بالاصل تین منسلک نظریات پر مشتمل تھا: انسان کا ایک فلسفیانہ تصور، ایک نظریۂ تاریخ اور ایک اقتصادی و سیاسی نظام۔ ایک اور مارکسزم بھی ہے جسے مختلف سوشلسٹ تحریکوں نے، بالخصوص 1914ء سے قبل عملی صورت دی۔ اس کے علاوہ لینن نے بھی مارکسزم کی ایک صورت پیش کی اور سٹالن نے اس میں ترمیم کی جسے مارکسی لینن ازم کہا جاتا ہے۔ روسی انقلاب کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے اسی پر عمل کیا۔ ٹراٹسکی، ماؤزے تنگ اور تیسری دنیا کے مختلف مارکسزم بھی موجود ہیں۔
مارکس نے اعلان کیا کہ فلسفے کو حقیقت کا روپ دینا لازمی ہے۔ آپ محض دنیا کی تعبیر و تشریح پر قانع نہیں رہ سکتے؛ اسے حقیقت کا روپ دینے کی فکر بھی کرنی چاہیے۔ اس طرح دنیا اور انفرادی شعور دونوں میں تبدیلی آئے گی۔ درحقیقت مارکس یقین رکھتا تھا کہ تمام علم نظریات کے تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے۔ وہ ایک تجربیت پسند (empiricist) نہیں تھا۔ اس کی تصنیف تصورات سے بھری پڑی ہے جو اسے سابق فلسفیوں اور ماہرین معاشیات (ہیگل، فختہ، کانٹ، ایڈم سمتھ وغیرہ) سے ملے۔
مارکس کی سوچ کا نمایاں ترین وصف یہ ہے کہ وہ انسان، علم، مادے اور فطرت جیسے مسائل کے پورے گروپ کے متعلق مجرد دعوے کرنے کے بجائے ہر مسئلے کا تجزیہ اس کے دیگر چیزوں کے ساتھ قوائی تعلق میں کرتا، اور سب سے بڑھ کر اُنھیں تاریخی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی حقائق سے مربوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
1859ء میں مارکس نے اپنے مقالے Contribution to the Critique of Political Economy میں معاشرے کے تجزیے کی بنیادیں واضح کیں: ’’انسان سماجی پیداواری عمل کے دوران متعین تعلقات میں بندھتے ہیں جو ان کی پیداوار کی مادی قوتوں کی ترقی کے ایک متعین مرحلے سے مطابقت رکھتے ہیں۔‘‘ یہ تعلقات مجموعی طور پر معاشرے کا اقتصادی، اصلی ڈھانچہ بناتے ہیں جس پر ایک قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ بنتا ہے، اور سماجی شعور کی متعین صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ مادی زندگی میں طریق پیداوار ہی سماجی، معاشی اور عقلی زندگی کا کردار متعین کرتا ہے۔ انسان اپنی ہستی کا تعین نہیں کرتے، بلکہ اس کے برعکس ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ اس قضیے کو بعد ازاں تاریخِ قانون کی سطح تک بلند کر کے تاریخی مادیت کا نام دیا گیا۔ مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو اور داس کیپیٹل کے علاوہ دیگر تحریروں میں بھی اس نظریے کا اطلاق کیا۔ اگرچہ کارل مارکس اپنے کارآمد قضیے پر برسوں تحقیق کرتا رہا، لیکن اسے دوٹوک انداز میں متشکل نہ کر پایا: اس کی نظر میں مشابہ حقیقتوں کے لیے مختلف اظہار کارآمد تھے۔
مارکس کے کام کے عین قلب تک براہ راست پہنچنے کے لیے آپ کو انسان کے لیے اس کے ٹھوس پروگرام پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس نے Economic and Philosophic Manuscripts (1844ء) میں لکھا، ’’سب سے پہلے انسان ایک فطری وجود ہے۔ فطری ہستی اور جان دار فطری ہستی کے طور پر ایک طرف وہ فطری اور قوائی طاقتوں سے متصف ہے ­ یہ طاقتیں اس میں رجحانات اور جبلتوں کے طور پر موجود ہیں۔ دوسری جانب وہ ایک غیر معروضی، فطری، طبعی، حساس وجود بھی ہے۔ وہ تکلیف اٹھاتا، محتاج اور محدود ہستی ہے۔ یعنی اس کی جبلتوں کے معروضات اس کی اپنی ذات سے باہر وجود رکھتے ہیں، اس سے آزاد ہیں، لیکن اپنی قوتوں کی توثیق اور شناخت کے لیے اس کی احتیاج، ناگزیر اور لازمی ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: