اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کی محبت میں۔۔۔۔۔||رؤف کلاسرا

انجم کاظمی ہم دوستوں کے لیے ایک بڑااہم کردار رہا ہے۔ لاہور سے ریاض گمب اور انجم کاظمی آئے اور محفل کو چار چاند لگ گئے۔انجم کاظمی، سجاد جہانیہ جیسے دوستوں ساتھ بڑا وقت ملتان میں گزرا۔سجاد جہانیہ کو سرکاری نوکری کا شوق نہ چڑھتا جو بقول اس کے وہ اپنے ابا حضور کی خواہش پوری کررہا تھا تو اس میں بڑا صحافی بننے کا بڑا ٹیلنٹ تھا۔ خیر اس نے اس کی کسر کہانیاں اور کالم لکھ کر پوری کر لی اور کمال نثر لکھتا ہے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرانے ملتانی دوستوں جمشید رضوانی اور سعود نیاز کی بیٹیوں کی شادی تھی۔ حیرانی بھی ہوئی تو ساتھ اپنے بوڑھے ہونے کا احساس بھی تیز ہوا۔
کل کی بات لگتی ہے جمشید رضوانی اور سعود نیاز کی بڑی دھوم سے باراتیں لے کر گئے تھے۔
کسی دوست نے جمشید رضوانی کے گھر کی دیواروں پر بارات کی تاریخ ساتھ یہ نعرہ لکھ دیا “چلو چلو بھکر چلو”:
بھکر بارات میں سب دوست شامل تھے۔ ہمارے مرحوم دوست قاضی عابد، طاہر ندیم،صدیق بلوچ،علی شیخ،فیاض انور.
جمشید اردو ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتا تھا اور میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں۔ روز ہی ملاقات ہوتی جو بعد میں گہری دوستی میں بدل گئی تھی۔ ملتان یونیورسٹی ہوسٹل میں دوستیاں ہوئیں جو عمر بھر چلتی رہیں۔
شادی کے فنکشن میں پرانے چہرے بڑی مدت بعد نظر آئے تو بہت ساری یادیں ابھریں۔ مرشد سعید ناصر ہمارے ہوسٹل کی شاموں کی شان ہوتا تھا۔دوسری بڑی محفل یا فلم کہہ لیں سجاد بری تھا۔سجاد بری میں بڑا ٹیلنٹ تھا۔اگر اداکاری میں جاتا تو سجاد بری آج ہر طرف چھایا ہوا ہوتا لیکن اب وہ بہاولپور ریڈیو چلاتا ہے اور خوب چلاتا ہے۔
مرشد سعید ناصر سے ہم سب شاعری اور گانے سنتے تھے۔ایک پکا جیالا۔اکثر عمر ہال یا ابوبکر ہال کی کنٹین پر محفلیں جمتی تھیں اور روزانہ ناصر تھہیم، جہانگیر بھٹہ، اعجاز نیازی،ناصر جعفری، شفیق لغاری، شعیب بٹھل ہوتے۔ریاض آباد کے اعجاز نیازی کے قہققے آج تک نہیں بھولے۔جب وہ ہنسنا شروع کرتا تو لگتا زندگی جاگ اٹھی ہے۔پہلے ہم سب دوست کسی لطیفے پرہنستے تو اس کے بعد نیازی کے قہقتوں پر ہنستے تھے۔ہمارا خوبصورت سرائیکی پٹھان اور یاروں کا یار بہت جلد جوانی میں ہی دنیا چھوڑ گیا جس کا دکھ آج تک محسوس ہوتا ہے۔
نیازی کی جیب بھی کھلی تھی جس سے اکثر ہم یار دوست کینٹن کا بل دلواتے۔ ہم سب کی تھوڑی سی بےعزتی کرنے بعد نیازی جیب سے پیسے نکال دیتا۔
میرا خیال ہے جتنا میں نے زندگی کو ان دوسالوں میں یونیورسٹی لائف کو انجوائے کیا وہ کبھی نہ کیا یا پھر لیہ کالج ہوسٹل کے چار سال۔ یوں میری ساری زندگی ایک طرف اور ہوسٹل لائف کے وہ چھ سال ان سب پر بھاری ہیں۔
میں اس بات کا قائل رہا ہوں کچھ بھی ہو بچوں کو میڑک بعد ضرور ہوسٹل لائف کا موقع دیں۔ماں باپ سمجھتے ہیں بچہ بگڑ جائے گا لیکن سب بچے بھی نہیں بگڑتے۔میرے سارے دوست سگریٹ پیتے یا تاش کھیلتے تھے۔میں نے آج تک نہ سگریٹ پی نہ تاش سیکھ سکا۔ شاید میرا ذہن تاش جیسی خوبصورت گیم کی باریکیوں کو کبھی نہ سمجھ سکا۔آج وہ سب دوست کامیاب لوگ ہیں۔ہوسٹل لائف آپ کو اسٹریٹ سمارٹ بنا دیتی ہے۔اگر آپ کو دو ایسے لوگ ملیں جن میں سے ایک ہوسٹل لائف گزار چکا ہو اور دوسرا اپنے گھر سے روزانہ کالج یا یونیورسٹی جاتا رہا ہو تو آپ کو ان دونوں کی شخصیتوں میں بہت بڑا فرق محسوس ہوگا۔ (میں نے خود اپنے دونوں بچوں کو اے لیول بعد کالج لائف شروع ہوتے ہی ہوسٹل بھیجا)
میں اس بات کا شدید مخالف ہوں کہہ چھوٹے بچوں کو دوردراز بورڈنگ سکول میں داخلہ کرا دیا جائے۔ بھلا والدین کیسے معصوم بچوں کو خود سے دور کر کےان کا مستقبل بنانے کے نام پر بھیج دیتے ہیں جس عمر میں بچے کی ذہنی اور ایموینشل گروتھ ہورہی ہوتی ہے۔اسے بہن بھائیوں کی کمپنی کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ اسے اٹھا کر دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔
برسوں پہلے کا وہ منظر نہیں بھولتا جب مظفرگڑھ کی ایک فیملی اپنے سات آٹھ سالہ بچے کو ملتان ائرپورٹ چھوڑنے آئی تھی۔ وہ بچہ مری میں بورڈنگ سکول میں پڑھ رہا تھا۔اس بچے کی چیخیں آج تک مجھے سنائی دیتی ہیں جب وہ اپنی ماں اور بہن سے لپٹ گیا تھا اور بورڈنگ کاونٹر کی طرف نہیں جانا چاہ رہا تھا۔ والدین نے اکیلے ٹکٹ لے کر دیا تھا کہ پنڈی ائرپورٹ سے اس بورڈنگ سکول کا ڈرائیور اسے پک کر کے مری لے جائے گا۔اس بچے کی حالت دیکھ کر میری اپنی آنکھوں میں آنسو تھے اور مجھے ان والدین سے چڑ ہوئی تھی۔ ایسا بھی کیا فیوچر کہ سات آٹھ برس کی عمر میں اسے سینکڑوں میل دور جا پھینکا تھا۔ جب جہاز لاہور پہنچا توموسم خراب ہوگیا اور پتہ چلا اب جہاز صبح ہی جائے گا۔ سب پریشان اب یہ چھوٹا بچہ کہاں جائے گا۔کس کے پاس رہے گا اور اس کا کون خیال رکھے گا؟
خیر ایک رحم دل ائرہوسٹس اس بچے کو اپنے ساتھ گھر لے گئی اور صبح اسے نیند سے جگا کر لے آئی تاکہ وہ جہاز پر سوار ہو کر پنڈی جائے۔ایک لمبی کہانی ہے کہ پھر کیا ہوا۔
برسوں گزر گئے لیکن وہ رات نہیں بھولی۔ مجھے ایسے والدین سے چڑ ہوگئی جو اتنے چھوٹے بچوں کو ہوسٹل بھیج دیتے ہیں۔ مجھے بھی ایک دفعہ کسی نے کہا بچوں کو بورڈنگ سکول میں ڈال دو۔ میں نے اس پر شاوٹ کیا کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں کہیے گا۔ بولا بچوں کا مستقبل بن جائے گا۔ میں نے کہا مجھے ایسا فیوچر نہیں چاہئے۔ باپ ہونے کے ناطے میری بھی ایموشینل ضروریات ہیں کہ شام کو گھر آئوں تو بچے دوڑ کر مجھے لپٹ جائیں یا صبح ان کے بیگ اٹھا کر سکول ڈراپ کروں اور دوپہر میں انہیں واپس لے کر آئوں۔ ان سے باتیں کروں۔ ان کے ساتھ کھیلوں۔
اگر میرے جیسے پینڈوں کا فیوچر بن گیا تھا جو ٹاٹ کے سکولز سے پڑھے تو ان کا بھی بن جائے گا۔
برسوں گزر گئے اور اب یہاں ملتان شادی ہال میں بیٹھا پرانے دوستوں کے چہرے یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
ڈاکٹر انوار احمد نظر آئے جنہوں نے اپنے ہزاروں طالبعلموں کو متاثر کیا۔ قمر رضا شہزاد، رضی الدین رضی جیسے بڑے شاعر تو مسیح اللہ جام پوری صاحب جیسا ملتان کا بڑا صحافی۔ شکیل انجم؛ شوکت اشفاق، رئوف مان، مظہر جاوید، رائو خالد۔
انجم کاظمی ہم دوستوں کے لیے ایک بڑااہم کردار رہا ہے۔ لاہور سے ریاض گمب اور انجم کاظمی آئے اور محفل کو چار چاند لگ گئے۔انجم کاظمی، سجاد جہانیہ جیسے دوستوں ساتھ بڑا وقت ملتان میں گزرا۔سجاد جہانیہ کو سرکاری نوکری کا شوق نہ چڑھتا جو بقول اس کے وہ اپنے ابا حضور کی خواہش پوری کررہا تھا تو اس میں بڑا صحافی بننے کا بڑا ٹیلنٹ تھا۔ خیر اس نے اس کی کسر کہانیاں اور کالم لکھ کر پوری کر لی اور کمال نثر لکھتا ہے۔
میرے لیے سب سے بڑا اعزاز انگلش ڈیپارٹمنٹ کے استاد مظہر سعید کاظمی صاحب سے ملنا تھا جو شادی میں خصوصی طور پر شریک تھے۔ ڈاکٹر انوار احمد کو علم ہے میں اپنے استادوں میں جن سے عقیدت کہیں یا محبت وہ مظہر سعید کاظمی صاحب سے رکھتا ہوں۔ مبینہ طلعت صاحبہ کا بھی بہت احترام رہا ہے یا پھر بھکر کے ظفر حسین ظفر صاحب کا۔ میں لندن بھی جا کر پڑھا لیکن مظہر سعید کاظمی جیسا استاد کہیں نہ ملا۔ انگلش لٹریچر آپ نے پڑھنا ہو تو لیہ کالج کے میرے بی اے انگلش لڑیچر کلاس کے استاد غلام محمد مرحوم (جی ایم صاحب) ہوں یا پھر مظہر سعید کاظمی ہوں۔
کاظمی صاحب کو جھک کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ملا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا ان کی کلاس میں سے کبھی کوئی لڑکا غائب ہوا ہو۔ وہ واحد کلاس تھی جس میں حاضری سوفیصد ہوتی تھی۔ وہ ایک گھنٹہ انگریزی ناول کلاس کا اپنا سماں ہوتا تھا۔ مظہر صاحب کا انداز بیاں ایک ایسا سحر طاری کرتا کہ دل چاہتا وہ انگریزی بولتے رہیں اور آپ سنتے رہیں۔
جب ہم سب کلاس فیلوز نے پہلے دن انہیں دیکھا اور پتہ چلا وہ انگریزی ناول پڑھائیں گے تو سب نے ایک دوسرے کو مایوس ہو کر دیکھا یار مارے گئے۔ ایک مذہبی گھرانے کا فرد لمبی داڑھی ساتھ کیا لٹریچر پڑھائیں گے۔ اور پھر انہوں نے ایسا پڑھایا کہ پھر کبھی ویسا نہ پڑھا۔ وہ واحد استاد تھے جن کے لیے ہم سب دعا کرتے تھے کہ وہ پریڈ کی چھٹی نہ کریں۔
میں نے کاظمی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ریکوسٹ کی میرے لیے دعا کیا کریں۔ اپنی خوبصورت مسکراہٹ ساتھ مجھے انہوں نے اپنے قریب کیا۔
خود کو خوش قسمت سمجھا کہ گائوں سکول کے گل محمد، کوٹ سلطان کے جام کرم الہی، کروڑ سکول کے چوہدری حسن، لیہ کالج کے ظفرحسین ظفر ، ملتان یونیورسٹی کے مظہر سعید کاظمی اور مبینہ طلعت تک کیا شاندار استاد ملے جنہوں نے زندگیاں ہی بدل دیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: