نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فیس بک پر جو لوگ مجھے پسند ہیں۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک پر جو لوگ مجھے پسند ہیں، جن سے مجھے محبت ہے، جن کی تحریر پڑھنے میں لطف آتا ہے، جن سے بات کرکے خوشی ہوتی ہے، ان میں وسی بابا کا نام بہت اوپر ہے۔ میں ان سے کبھی نہیں ملا۔ کسی کا باطن بھی کوئی کیسے جان سکتا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وسی بابے کا ظاہر باطن ایک ہے۔ شفاف بندہ ہے۔ سیدھا سادہ ہے لیکن بے عقل نہیں، دانش ور ہے۔ صوفی ہونے کا ڈھونگ نہیں کرتا لیکن طبیعت ویسی ہی ہے۔ سیاسی شعور بلند اور سماجی مزاج سے گہری آشنائی ہے۔ اس کے باوجود اپنی تحریر یا کمنٹ سے کسی کو خفا نہیں کرتا۔ ایسے کتنے لوگوں کو آپ جانتے ہیں؟
وسی بابے نے آج اپنی ٹائم لائن پر دوستوں سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ پاکستان سے باہر منتقل ہونا چاہتے ہیں؟ جاسکتے ہیں؟ نہیں گئے تو کیوں؟ خود انھوں نے لکھا کہ وہ جاسکتے ہیں لیکن نہیں گئے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں رہنے کا نشہ، والدین، مناسب آمدن۔ اس پر بہت سے دوستوں نے جواب دیا۔ کچھ نے کہا کہ وہ باہر جانا چاہتے ہیں۔ باقی لوگوں نے کہا کہ نہیں، انھیں وطن میں رہنا پسند ہے۔ یہ سمجھ داری والا جواب ہے۔ جب تک ویزا نہ ملے، یہی جواب دینا چاہیے۔
میں وہاں کمنٹ کرنا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا کہ الگ پوسٹ بنادوں۔ یہاں میرے حلقے کے زیادہ لوگ پڑھ لیں گے۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ملک جاکر، خاص طور پر امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ جاکر زیادہ پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ یہ غلط خیال ہے۔ آپ ڈالر کمائیں گے تو ڈالر ہی خرچ کریں گے۔ اگر آپ پاکستان میں زیادہ پیسہ کماسکتے ہیں یا بچاسکتے ہیں تو باہر بھی وہی صورت رہے گی۔ اگر یہاں تنخواہ دار ہیں اور باہر بھی ملازمت ہی کرنی ہے تو بینک اکاونٹ نہیں بھرنے والا۔
جو لوگ رشتے داروں کی وجہ سے نہیں جانا چاہتے، انھیں سوچنا چاہیے کہ ایک شخص باہر جاتا ہے تو دس افراد کو باہر جانے کی راہ دکھا سکتا ہے۔ کئی ملک والدین، بہنوں اور بھائیوں کی امیگریشن اسپانسر کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ نہیں تو آپ کسی ملک میں رہنے کی وجہ سے ہزار باتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ دوسروں کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ حال میں ہمارے ممتاز ادیب ابوالحسن نغمی کا انتقال ہوا ہے۔ وہ اپنے خاندان میں سب سے پہلے امریکا آئے۔ پھر انھوں نے اپنے پچاس رشتے داروں کو امریکا سیٹل کرایا۔ تقریبا پورا خاندان آگیا۔
مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ کراچی چھوڑ کے جانے والا زندگی بھر اسے یاد کرتا رہتا ہے۔ میں تو خیر انچولی میں رہتا تھا۔ جو وہاں نہیں رہے، وہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ کیسی جگہ ہے۔ میں نے وہ وقت دیکھا ہے کہ پورا محلہ ایک خاندان جیسا تھا۔ تقریبا سب اردو بولنے والے، تقریبا سب شیعہ، ایک خاص تہذیب اور خاص کلچر۔ بڑے عالم، ادیب، شاعر چند گلیوں کے فاصلے سے رہتے تھے۔ آج آپ کو کوئی گلی ایسی نہیں ملے گی جس سے دو چار افراد بیرون ملک منتقل نہ ہوگئے ہوں۔ میں دسیوں سے واقف ہوں۔
کیا یہ سب لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے نکلے؟ کیا میں خود ڈالر کمانے کے لیے امریکا آیا۔ نہیں۔ مجھے وائس آف امریکا میں جتنی تنخواہ ڈالروں میں ملتی تھی، اس سے زیادہ پاکستان میں جیو دیتا تھا۔ میں اور لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو خوش حال تھے۔ کاروبار یا ڈاکٹری کررہے تھے۔ بہتر زندگی گزار رہے تھے۔ پھر کیا وجہ ہوئی؟
آپ ایک سال میں ایک شہر میں شیعہ نام کے دو سو افراد کو سر میں گولی مار کے قتل کردیں گے تو کون اپنی خوشی سے وہاں رہنا چاہے گا۔ شیعہ نام کے اس لیے کہا کہ کئی غریب سنی بھی نام کی وجہ سے قتل ہوئے۔ ان میں دو سنی ڈاکٹروں سے میں بھی واقف تھا۔ شیعہ مقتولین کے جنازے جس امام بارگاہ سے اٹھتے تھے، میں اس کے بالکل سامنے والے گھر میں رہتا تھا۔ ایک طویل عرصہ ایسا گزرا کہ ہر دوسرے دن کسی ماں، کسی بہن کا بین سنا۔
دھماکے، لاقانونیت، موبائل چھینا جانا، یہ مسائل الگ۔ دو بار میرا موبائل چھنا۔ ایک بار میری کار پر فائرنگ ہوئی۔ اس وقت دو کولیگ میرے ساتھ کار میں تھے۔ پتا نہیں ہم کیسے بچے۔ میں ان ذاتی مسائل کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو ایک صحافی ہونے یا فوج اور مذہب پر تبصروں کی وجہ سے پیش آئے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ، ملک سے نکلنے کا بڑا جواز معیار زندگی ہونا چاہیے۔ ہر شخص کو بہتر زندگی گزارنے کا حق ہوتا ہے۔ ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کی خرابی کا خمیازہ کوئی عام شہری کیوں اٹھائے؟ حکمران ملک کو لوٹ کے کھاگئے، اس کے بدلے میری بجلی کیوں بند ہو؟ میں گیس اور پانی کی فراہمی سے کیوں محروم رہوں؟ میں دو روپے کی چیز سو روپے میں کیوں خریدوں؟ میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کیوں دھکے کھاوں؟ میں اپنا موبائل کیوں چھنواوں؟
اگر آپ کسی مذہبی یا نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں، ملحد، ریشنلسٹ، کمیونسٹ یا سوشلسٹ ہیں، سیاسی اشرافیہ یا فوجی خاندان سے تعلق نہیں، مدرسے میں نہیں پڑھے، کسی مافیا کے رکن نہیں، تو یہ ملک ویسے بھی آپ کے لیے نہیں ہے۔ آپ کاروبار کرتے ہیں تو دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ تنخواہ دار ہیں تو تیسرے درجے کے شودر ہیں۔
میں آخری دم تک امید پر قائم رہنے والا اور محنت کرنے والا شخص ہوں۔ لیکن یہاں کچھ مایوسی کا شکار ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میری عمر کے لوگوں کی زندگی میں ملک کی سمت درست ہوسکتی ہے۔ یہ سمت صرف ایک بوٹ کے اباوٹ ٹرن سے درست ہوسکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ بنیاد میں ٹیڑھ ہو تو عمارت سیدھی نہیں ہوسکتی۔ اسے گرا کے دوبارہ بنانا پڑتا ہے۔ لیکن اس میں بھی خطرہ ہے۔ یہ عمارت گری تو آپ ہی ملبے تلے آکر کچلے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author