مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانحہ پشاور۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر پشاور پولیس لائنز کی جامعہ مسجد میں گزشتہ روز نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران خودکش دھماکے میں مسجد کے خطیب سمیت 93افراد شہید اور 221 زخمی ہوگئے۔ خودکش حملہ آور نمازیوں کی پہلی صف میں موجود تھا۔ شہداء میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
سی سی پی او پشاور نے سانحہ کو سکیورٹی کی کوتاہی کا نتیجہ قرار دیا۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران ہونے والے خودکش حملے کے وقت مسجد میں لگ بھگ 400نمازی اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں 10کلو سے زائد بارود استعمال ہوا۔
خودکش حملہ آورحساس علاقے میں واقع مسجد تک کیسے پہنچا؟ وزیراعظم شہباز شریف کے اس سوال پر آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ’’ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے مسجد کے اندر موجود ہو‘‘۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے مطابق حملہ آور کا سہولت کار پولیس لائنز کے اندر کا آدمی ہی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ حملہ آور دو دن سے پولیس لائنز کی حدود میں موجود تھا۔ حملے سے قبل مکمل ریکی کی گئی۔
سانحہ پولیس لائنز پشاور کی اطلاع ملتے ہی وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی مصروفیات ترک کرکے پشاور پہنچ گئے۔ دھماکے سے مسجد کی قریبی عمارتوں کے درودیوار ہل گئے۔ بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع سے پشاور سمیت پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔
سانحہ پشاور کے حوالے سے ابتدائی اطلاعات پر حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا، تحقیقات مکمل ہونے پر ہی ان سوالات کا جواب مل سکتا ہے جو گزشتہ سپہر سے اٹھائے جارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے منگل کو یوم سوگ کے ساتھ صوبے بھر میں قومی پرچم سرنگوں کیا۔ پشاور پولیس لائنز سانحہ کے کچھ دیر بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے اس کارروائی کو اپنے ایک کمانڈر خالد عمر خراسانی کے قتل کا بدلہ قرار دیتے ہوئے ذمہ داری قبول کی تاہم رات گئے ٹی ٹی پی نے ایک اور اعلامیہ میں سانحہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مساجد میں حملے ہماری پالیسی کا حصہ نہیں۔
اعترافی بیان اور تردیدی اعلامیہ بارے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے موقف تبدیل کیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جو تنظیم 70ہزار سے زائد مقتولین کے قتلوں کا فخریہ اعتراف کرتی ہو وہ کسی ایک واقعہ پر عوامی ردعمل کے خدشے سے موقف تبدیل کرسکتی ہے؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تردیدی اعلامیہ عوام اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔
سوموار کو ہی خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں جاری آپریشن کے دوران 2دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جبکہ سکیورٹی فورسز نے ایک دہشت گرد کو گرفتار کرلیا۔ اسی روز کرم ایجنسی کے افغانستان سے متصل علاقے میں آپریشن کے دوران پچھلے ماہ خانیوال میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے دو افسروں کے قاتل عمر نیازی زخمی حالت میں گرفتاری عمل میں لائی گئی بعدازاں بتایا گیا کہ زخمی حالت میں گرفتار دہشت گرد ہلاک ہوگیا ہے۔ عمر نیازی کہاں اور کیسے زخمی ہوا اور اسی حالت میں گرفتاری کے بعد اس نے کوئی ابتدائی بیان بھی دیا یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دیا جانا چاہیے۔
سانحہ پشاور میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ، امریکہ، جرمنی، ایران، سعودی عرب، عرباطنیہ اور ترکیہ کی حکومتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت اور تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
سانحہ پشاور کے حوالے سے وزیراعظم کے پوچھے گئے سوالات کا جو جواب آئی جی خیبر پختونخوا نے دیا وہ ایک بچگانہ بات ہی ہے۔ بالفرض ان کی بات کو درست مان بھی لیا جائے تو کیا پولیس لائنز کی حدود میں رہائشی کوارٹرز کی وجہ سے کوئی بھی غیرمتعلقہ شخص بنا کسی شناخت کے داخل ہوسکتا ہے یا داخلے کے لئے شناخت ضروری ہے؟
’’ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی اندر موجود ہو‘‘ایک غیرمتعلقہ شخص سہولت کے ساتھ دس کلو بارود سمیت پولیس لائنز میں داخل ہوا اور آسانی کے ساتھ نمازیوں کی پہلی صف میں کھڑا ہوگیا، کیا مرکزی داخلی راستے (یا دو دوسرے راستوں جیسا کہ بتایا جارہا ہے) پر شناخت و تلاشی کے بغیر کسی بھی شخص کو اندر جانے دیا جاسکتا ہے؟ سانحہ پشاور پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ حکومتی زعما اور سیاسی قائدین سمیت زندگی کے مختلف شعبوں کے ذمہ داران کی جانب سے رنج و غم کا اظہار بجا مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے دہشت گردوں کے نشانہ پر آئے شہر کے حساس علاقوں میں سے ایک میں دہشت گرد جتنی آسانی سے ہدف کے حصول میں کیسے کامیاب ہوا اس سے خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کے ساتھ پولیس لائنز کی سکیورٹی کے امور پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
10کلو یا اس سے زیادہ بارود سمیت ایک انسانیت دشمن دہشت گرد کا نمازیوں کی پہلی صف میں موجود ہونا یقیناً اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ واردات اندرونی سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا کہ حملہ آور 2دن سے پولیس لائنز کے اندر رہ رہا تھا یقیناً کسی معلومات کی بنیاد پر ہوگا۔ تحقیقات کرنے والوں نے اس بنیاد پر اب تک کیا معلومات حاصل کیں اس پر شہریوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ گے گزشتہ اکتوبر میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے عام جنگ کے اعلان کے بعد شہریوں اور خود حساس مقامات کی سکیورٹی کے لئے خصوصی پلان کیوں وضع نہ کیا گیا۔ جہاں تک اس سانحہ کی ابتداً ذمہ داری قبول کرنے اور بعدازاں اس سے انحراف کے حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے بیانات کاتعلق ہے تو یہ شہریوں اور حکومت کی توجہ ہٹانے کی کوشش لگتے ہیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی قبل ازیں مساجد اور دوسرے مذہبی مقامات کو نہ صرف نشانہ بناتی رہی ہے بلکہ اس کے ذمہ داران فخریہ طور پر ان کارروائیوں کو اپنے جہاد کا حصہ بتاکر اعترافی بیانات جاری کرتے رہے۔ حالیہ اعترافی اور تردیدی بیان ہر دو کا مقصد فقط یہ ہے کہ تحقیقات کرنے والوں کو گمراہ کیا جاسکے۔ گزشتہ روز کے سانحہ کی المناکی اپنی جگہ اس حوالے سے یہ بھی دیکھا جانا ضروری ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں دہشت گردوں نے جس منظم انداز میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مذموم کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس کے ڈانڈے افغانستان سے جاملتے ہیں۔
چند دن قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پشاور کے ایک مضافاتی مقام سے 9خودکش حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کے بعد یہ بتایا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں خودکش بمباروں کی گرفتاری نہ صرف اہمیت کی حامل ہے بلکہ اس سے پشاور اور دوسرے شہروں کو بڑے نقصان سے بچالیا گیا۔
گزشتہ روز پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے نے اس سوال کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے کہ 9خودکش حملہ آوروں کی گرفتاری کے آپریشن کے دوران کچھ دہشت گرد فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوئے تھے نیز یہ کہ گرفتار شدگان نے ابتدائی تفتیش کے دوران اپنے دیگر ساتھیوں کے حوالے سے کیا معلومات فراہم کیں؟
ان گرفتار دہشت گردوں میں 3افغان شہری بھی تھے۔ ذمہ دار حکام نے اس حوالے سے افغان حکومت سے رابطہ کیا؟ سوموار کا سانحہ پشاور اس امر کا متقاضی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتی جائے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور حالیہ واقعہ کے سہولت کاروں کو جلدازجلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: