مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’زردپتوں کی بہار‘‘۔ رام لعل ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رام لعل میانوالی سے اٹھے جوانی کے دن لاہور میں ملازمت کرتے ہوئے بیتائے پھر ایک دن انہیں احساس ہوا کہ اب اس ملک کی سرحدسے دوسری طرف جانے میں ہی عافیت ہے۔ عافیت کی تلاش یا مسلط کردہ عافیت؟
اس سوال کا جواب ان خاندانوں کے پاس ہی ہے جنہیں 14اگست 1947ء کے بٹوارے نے دربدر کردیا۔ میانوالی کی زرخیز مٹی میں گندھے رام لعل متحدہ ہندوستان کی ریلوے میں ملازم تھے۔ بٹوارہ ہوا تو زمین کے ساتھ محکمے میں بھی بٹ گئے۔ رام لعل لاہور سے چلے لکھنو جا بسے۔
کیا محض اتنا ہی تعارف ہے اس شخص کا جسے رام لعل کہتے ہیں؟ مجھ طالب علم کے نزدیک ’’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘‘۔ رام لعل بھی اپنا تعارف خود ہیں ایک حوالہ میانوالی ہے جہاں وہ پیدا ہوئے ان کے آبائو اجداد صدیوں سے اس شہر میں بستے تھے۔ کاروباری خاندان سے تعلق تھا ان کے والد کی میانوالی کے مین بازار میں دکان تھی۔
اس شہر کی ایک گلی کے مکان میں ان کا جنم ہوا۔ یہیں چلنا بولنا سیکھا، تعلیم حاصل کی۔ اپنی جنم بھومی سے اجڑے رام لعل لکھنو میں تو جابسے دل مگر جنم بھومی میں اٹکا رہا۔ شہریت کے قوانین کے حساب سے وہ بھارتی شہری ہوئے جنم بھومی کے حساب سے میانوالی کے۔
دو ملکوں میں بٹے آدمی نے حالات کے جبر اور مسلط کردہ ہجرت کے عذابوں کو بھگتنے کےساتھ اردو ادب میں اپنا مقام بنایا۔ ان کے افسانے اردو پڑھنے والوں کے دل و دماغ پر دستک دیتے ہیں۔ انہوں نے بٹوارے کے پس منظر اور بٹوارے کے عمل میں انسانیت کو لگے زخموں کو لفظوں کی زبان دی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ رام لعل کے افسانے تو افسانے اردو ادب کی ایک صنف عین تھے’’درداں دی ماڑی جندڑی علیل ہے ” کے مصداق ان زخموں کی قسط وار داستان جو بٹوارے نے رام لعل کے چار اور کے ان لوگوں کولگائے جن کی ملکی شناخت ایک ہی رات میں بدل گئی۔
رام لعل نے ’’زرد پتوں کی بہار‘‘ کے عنوان سے اپنا سفرنامہ پاکستان لکھا یہ سفر نامہ بہت مقبول ہوا۔ چند دن ادھر ایک دوست کی مہربانی سے چند دیگر کتب کے ساتھ ’’زرد پتوں کی بہار‘‘ مجھ تک پہنچا تو میں نے سوشل میڈیا کے اپنے فیس بک اکائونٹ پر اس سفر نامے کے ایک اقتباس کے ساتھ کتاب کا ٹائٹل شیئر کیا۔ دومہربانوں نے تلخی سے بھرے کمنٹس کئے۔
دو مہربانوں میں سے ایک سید انجم رضا ترمذی مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں دوسرے سید اقدس رضوی پچھلی صدی کے نامور شاعر سید شکیب جلالی کے فرزند ارجمند ہیں ۔ اتفاق سے دونوں مہربانوں کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جنہیں بٹوارہ اپنے اصلی (آبائی وطن ) سے کاٹ کر اس ملک میں لے آیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے۔
دونوں کی آراء میں ڈھکے چھپے الفاظ میں دکھ بھی تھا طنز بھی۔ ان کے دکھ کو نہ صرف محسوس کر سکتا ہوں بلکہ یہ بھی عرض کرتا رہتا ہوں کہ بٹوارے کے دکھ اور گھائو بھرنے والے نہیں۔ البتہ اس ڈھکے چھپے طنز سے متفق نہیں ہوں۔
یہ حقیقت ہے کہ بٹوارے کے عذاب بھگتنے والے خاندانوں کی تیسری اور چوتھی نسل کے لب و لہجہ میں تلخی ہے۔ تلخی بجا مگر مقامیت کے حوالے ان کی سوچ اور رائے دونوں یکطرفہ ہیں۔ ہم اور آپ سبھی دوسروں کے گریبانوں میں جھانک کر کج تلاش کرتے ہیں اپنی ذات و کلام کے کج نہیں دیکھتے ۔
ہر دو صاحبان کے کمنٹس کے جواب میں یہ ضرور عرض کیا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ یہی سچ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
ہم رام لعل کے سفرنامہ پاکستان ’’زرد پتوں کی بہار‘‘ پر بات کرتے ہیں۔ رام لعل لکھتے ہیں
’’میں 14اگست 1947ء کے بعد واقعی اس نئی مملکت کا شہری بن کر رہنا چاہتا تھا لیکن پنجاب کے دونوں حصوں کے خون ریز واقعات کے بعد جو دونوں ملکوں کے لئے بے قابو ہوگئے تھے ایسا کرنا ناممکن بنادیا۔ گزشتہ تینتیس (33) برسوں ( یہ سفر نامہ جب لکھا گیا ) میں اس دکھ کو میں کسی بھی لمحے نہیں بھلاسکا تھا کہ میں اپنے وطن سے زبردستی سرحد کے پاس دھکیل دیا گیا تھا اور برصغیر کے اس حصے کو میں کبھی اپنے خوابوں سے جھٹک نہیں پایا ہوں‘‘۔
میرے دونوں عزیزوں نے اس اقتساب کے ساتھ لکھے میرے نوٹ پر تبصرہ کیا تھا۔ اس نوٹ کو دوبارہ یہاں لکھے دیتا ہوں۔ عرض کیا تھا ’’طالب علم میانوالی میں جنم لینے لاہور میں جوانی کی انگڑائیاں لیتے ایک دن امڑی کے دیس کو چھوڑ کر لکھنو جابسنے والے رام لعل کا سفر نامہ پاکستان پڑھتے ہوئے بٹوارے کے المیے کو شدت سے محسوس کررہا ہے‘‘۔
باردیگر عرض ہے کہ دونوں قابل احترام و محبت عزیزوں کی رائے ان کی سوچ کا مظہر ہے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے ان کی آراء یاد آگئیں۔
ہم رام لعل کی باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا
’’3مارچ 1947ء کو ماسٹر تارا سنگھ نے تلوار نکال کر کہا تھا پاکستان ہماری لاشوں پر بنے گا۔ ایک بڑے لیڈر کی بڑی غلطی سے ہزاروں زندہ اور خوبصورت انسان لاشوں میں تبدیل کردیئے گئے۔ اگر ماسر تارا سنگھ نے ایسا نہ کیا ہوتا تو شاید دو مملکتیں بڑے پرسکون حالات میں وجود میں آئی ہوتیں۔ آبادی کا تبادلہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر نہ ہوتا اور شاید میں ماسٹر تارا سنگھ کی کی وجہ سے لاہور میں رہنے سے محروم ہوگیا تھا۔ تاریخ چھوٹے چھوٹے چہرے ہمیشہ بھول جاتی ہے۔ وہ بڑے چہروں کو ہی یاد رکھتی ہے‘‘۔
رام لعل کی بات ایک طرح سے درست ہے مگر اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ آج بھی اردو ادب کے طالب علموں کے لئے قابل احترام ہیں۔ اپنی تحریروں اور سچے جذبوں کی بدولت ہمیشہ قابل احترام اور باعث فخر رہیں گے
مگر ماسٹر تارا سنگھ کو تاریخ کے فقط وہ طلباء ہی جان پائیں گے جو بٹوارے کی تاریخ میں سے 3مارچ 1947ء کا دن تلاش کرکے اس دن کے واقعات پڑھیں گے۔
’’زرد پتوں کی بہار‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا رام لعل کا سفر نامہ پاکستان بظاہر سفرنامہ ہے لیکن ہر سطر حال دل بیان کرتی ہے جنم بھومی اور پرکھوں کے دیس سے ہجرت کا نوحہ ہے۔ میانوالی کی سرزمین سے والہانہ محبت میں گندھی ہوئی۔ رام لعل کا اپنے آبائی گھر کے صحن سے کچھ مٹی لے جانا، آنسو رولاتا ہے
یہ آنسو جنم بھومی اور آبائی وطن سے بچھڑنے والے ہر شخص کا مقدر بنتے ہیں۔ سفر نامے میں لاہور میانوالی اور کراچی تین شہروں کا احوال بیان ہوا دوستوں سے ملاقاتوں او چند تقریبات کا آنکھوں دیکھا حال ہر سطر متاثر کن ہے لیکن سفر نامے کا میانوالی والا حصہ کاش میں ان جذبوں کو لفظوں میں گوندھ کر پڑھنے والوں کے لئے پیش کرسکتا۔ جنم بھومی سے عارضی جدائی مجھ ایسے شخص کو اس کے باوجود رولاتی ہے کہ میں شہر مادرِ مہربان سے ہر بار بچھڑتے ہوئے کم از کم یہ تو جانتاہوں کہ ایک بار نہیں بار بار پھر شہر مادر مہربان کی سمت پلٹوں گا چاہے آخری سانس ہی کیوں نہ چل رہے ہوں
مگر اس شخص کا کیا کیجئے جو جنم بھومی کی مٹی کی خوشبو کو سانسوں میں اتارے اپنوں کے درمیان چند دن بیتائے اور پلٹ جانے پر مجبور ہوں یہ بھی نہ جانتا ہوں کہ پھر کبھی شہر مادر کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے معطر ہوپائے گا کہ نہیں۔ برصغیر کی تقسیم کو جب جب بٹوارہ لکھتا ہوں میرے دوست اور بہت سارے پڑھنے والے ناراض ہوتے ہیں۔ مجھے ایک سادہ سی بات مطالعے اور مشاہدے نے سمجھائی وہ یہ کہ تقسیم افہام و تفہیم سے ہوتی ہے اور بٹوارہ نفرتوں پر۔ نفرتوں پر ہوا بٹوارہ محبتوں، انسانیت اور نعمتوں کو کھاجاتا ہے۔
سرحد دنیا کے ممالک کے درمیان ایک عام بات ہے مگر ہمارے ہاں یہ خون کی لکیر سے کھینچی گئی۔ ظاہر ہے خون سے کھینچی گئی سرحدی لکیر میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
آج دونوں طرف انسانیت پرست کتنے ہیں اور کتنے ہیں جو پڑوسی سے محبت بھرے تعلقات کے حامی ہوں؟ اپنے مطالعے کی روشنی میں طالب علم یہی سمجھ پایا کہ بٹوارے کی سازش میں انسانی لہو سے رنگ بھرنے کے لئے طرفین کے بوزنوں کو استعمال کیا گیا۔
انسانی لہو بہانا کس نے شروع کیا کیا فسادات پہلے جالندھر وغیرہ میں ہوئے یا لاہور اور راولپنڈی میں غیرمسلموں کا لہو بہایا گیا۔
اس سے اہم سوال یہ ہے کہ ہزار برس سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوئے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ فسادات کی تالی بھی ایک ہاتھ سے نہیں بجی تھی ۔ بٹوارے کی بھینٹ چڑھے اور مجبوراً نقل مکانی کرنے والے بہرطور مظلوم ہیں۔ وہ اُدھر ہوں یا اِدھر ۔
البتہ یہ بات اہم ہے کہ آگے بڑھنا ہے یا بٹوارے کے مصائب کا بدلہ لینا ہے۔ آگے بڑھنا اہم ہے۔
رام لعل کا سفر نامہ پاکستان بھی یہی سمجھاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: