اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ترقی میں حائل رکاوٹیں||اسلم اعوان

اسلم اعوان سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہ ایک عرصے سے ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفِ اول کی قومی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے چند نمایاں رہنمائوں نے اپنے پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ”ری امیجنگ پاکستان‘‘ (Reimagining Pakistan ) کے عنوان سے ایک صحت مند عوامی مباحثے کی ابتدا کرکے مایوسی کی یبوست کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش کو ہم صبحِ امید کے نقیبوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے والوں میں شاہدخاقان عباسی جیسے بالغ النظر اور بہادر سیاستدان بھی شامل ہیں جن کی اصابتِ رائے، سیرچشمی اورکسرنفسی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اگر اجتماعی حیات کے دکھوں کی درست تشخیص کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطر قوم کی مجموعی دانش کو بروئے کار لانے کی یہ مشق جاری رکھی گئی تو ہم بقائے دوام کی منزلِ مقصود کو پا لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقد ہونے والے پہلے سیمینار میں جہاں بلوچوں کی روایتی لیڈرشپ خاص طور پر نواب اسلم رئیسانی اور محمد عیسیٰ روشان نے ماضی میں بلوچستان کی قبائلی قیادت کے ساتھ ہونے والی بدعہدیوں کے دل سوز تذکرے‘ حال ہی میں بلوچ سماج کے ساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے جلد قابلِ قبول فارمولا تلاش کرنے اور بصورتِ دیگر ہولناک نتائج کے لیے تیار رہنے کی وعیدیں سنائیں‘ وہاں رفیع اللہ کاکڑ نے ہمارے فرسودہ سیاسی نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور سماجی ناہمواریوں کی درست نشاندہی کرنے کے علاوہ بلوچستان بحران کے حل کی ایسی قابلِ عمل تجاویز پیش کیں، جن پر اگر دیانتداری سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو کافی حد تک ہم اُن سماجی تضادات اور سیاسی تنازعات پہ قابو پا سکتے ہیں، جن کے پسِ پردہ محرکات میں ہماری قیادت کی نالائقیوں کے علاوہ عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں بھی شامل ہیں۔ رفیع اللہ کاکڑ نے اپنی تقریر میں ممبرانِ اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز کے ضیاع اور اِس ‘سیاسی رشوت‘ کے مضمرات کی تفہیم کرتے ہوئے اس پریکٹس کو فوری طور پر بند کرنے کے علاوہ بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کو فعال بنا کر جدید خطوط پر معاشرے کی تنظیم سازی، لوگوں کو بنیادی ضروریات کی آسان فراہمی، ترقی کے عمل کو ہموار بنانے اورنچلی سطح کی فیصلہ سازی کے نظام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شریک کرنے کے طور طریقوں کی وضاحت کی۔ انہوں نے قومی وسائل کو آبادی کے تناسب سے بانٹنے کے بجائے خطہ کے جیوپولیٹکل حالات اور علاقائی ضرورتوں کے مطابق تقسیم کرنے کے لیے سینیٹ کے ممبران کا براہِ راست انتخاب کرانے کی تجویز بھی پیش کی اور ساتھ ہی کئی ممالک میں اس قسم کے کامیاب تجربات کے حوالے بھی دیے؛ تاہم وہ قبائلیت کی فرسودگی سے ایک قدم آگے نکل کر معاشرتی وجود میں ڈھلنے کی کوئی قابلِ عمل تجویز پیش نہیں کر سکے۔
بہرحال‘ اس قسم کے سیمینارز ہمارے ماحول پر چھائے گھٹن کے احساس کو کم کرنے اور قومی امور میں تمام اہل الرائے افراد کی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہمیں کنفیوژن اور ذہنی انتشار کی کیفیت سے نکال کر فکری طور پر ایک مربوط قوم بنانے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ کمیونزم کے بعد سرمایہ دارنہ نظامِ معیشت کی ناکامی کے باعث پاپولر ادارہ جاتی جمہوریت بھی نسلِ انسانی کے مسائل کی پیچیدگیوں سے نمٹنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ کرۂ ارض شاید پہلی بار طاقت کی یک قطبی اور دو قطبی تقسیم کے اثر سے باہر نکل کر سراب کے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے؛ چنانچہ اس وقت پوری دنیا‘ نہ چاہتے ہوئے بھی‘ پیراڈئم شفٹ کے نازک مراحل سے گزر رہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اگرچہ کرۂ ارض کے انسانوں کو باہم مربوط کر دیا ہے لیکن ہمارے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور کشمیر میں بسنے والے کروڑوں لوگ آج بھی اندرونِ سندھ میں غربت و افلاس اور وڈیرہ شاہی کے ظلم کی چکی میں پستی انسانیت اور سابقہ فاٹا کے قبائلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی مہیب دہشت گردی کے علاوہ بلوچستان کے بحران اور بلوچ عوام کی حالتِ زار سے لاتعلق ہیں۔ اس لیے ری امیجنگ پاکستان جیسے سیمینارز کا انعقاد کسی حد تک بائیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے اپنے ہم وطن بلوچوں اور پیش پا افتادہ بستیوں کے حالات بارے آگاہی کا ذریعہ بن گیا۔
اس خیال کے محرکِ اول شاہد خاقان عباسی نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں غیر فعال ہیں، قومی امور سے متعلق کئی فیصلے ماورائے آئین ہوتے ہیں،ادارے اپنے دائرۂ اختیار سے باہر نکل کر ملکی معاملات پر اثرانداز ہوتے ہیں، جب مکالمہ ختم ہو جائے تو سیاست انتقام اور دشمنی میں بدل جاتی ہے‘‘۔یعنی اس ملک کے اہلِ خرد کو ان مسائل پر صحت مند مباحثہ شروع کرنا ہو گا۔ بلاشبہ قومی مکالمے کے آئینی فورم پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے غیرفعال ہو جانے کی وجہ سے ہمارا اجتماعی سیاسی نظام بیکار اور قانون کی حکمرانی کا تصور مفقود ہو گیا، حتیٰ کہ ازمنہ رفتہ کا وہ قبائلی تمدن بھی متروک ہو گیا جس نے صدیوں تک گروہِ انسانی کو جوڑے رکھا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ فی الوقت نسلی و لسانی عصبیت کا فلسفۂ سیاست بھی کشش کھو چکاہے، اس لیے زندگی کی تفہیم اور نوعِ انسانی کی فلاح کے لیے ایسے وسیع قومی مکالمے کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھ سکے۔ لاریب‘ قبائلیت انسان کے اُس عہدِ طفلیت کی باقیات میں سے ہے جب روئے زمین پر نسلِ انسانی کو اپنی بقا کی خاطر ارتکازِ قوت کیلئے طاقتور قبائلی عصبیتوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ انسانوں کو نظام ہائے سلطنت کا تصور سات ہزار سال پہلے نینوا کے بادشاہ حمورابی نے دیا‘ جس نے حرمتِ جان کا قانون بنا کر ” سر کے بدلے سر‘‘ جیسی سزائیں مقرر کیں اورپہلی بار نوعِ انسانی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اک گونا آزادی کے احساس کو پایا۔ بلاشبہ ہم قانون کو اس لیے تسلیم کرتے ہیں تاکہ ہم آزاد ہو جائیں۔ بدقسمتی سے انگریزنے خیبرپختونخوا کے فاٹا ایریاز اور بلوچستان میں جمود کو برقرار رکھنے کیلئے فرسودہ قبائلیت کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر ایف سی آرجیسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے مَلکانہ اورسرداری نظام کے مہروں کے ذریعے ڈیڑھ سو سال تک بلوچوں اور پشتونوں کے سماجی و سیاسی ارتقا کو روکے رکھا۔ افسوس کہ آزادی کے بعد بھی ہم قبائلیت کے گنبدِ بے در سے نکلنے کی راہ نہ بنا سکے؛ چنانچہ بلوچستان میں سیاست کی سماجیات غیر واضح طور پر گہرے جمود کی نشاندہی کرتی ہے۔
جب سیاست کی عمرانیات کا ذکر کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر واضح کرتے ہیں کہ تحقیق کا فریم ورک‘ نقطۂ نظر یا فوکس طاقت کا حصول نہیں بلکہ سماجی اقدار، رسم و رواج اور زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کیلئے آئینی ریاست کا ٹول درکار ہے۔ گویا اجتماعی نظم (ریاست) آزادی کا وسیلہ ہے‘ خود نصب العین نہیں۔ اس لیے ریاست کی تقدیس کے باوجود سماجی، سیاسی اورسائنسی ارتقا کو اختلافات کے سہارے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنا لازمی ہوتا ہے؛ تاہم سوشل سائنس کو پولیٹکل سائنس کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کے مظاہر بہت سے شعبوں کے لیے تشویش کا باعث بنے اور یہی ابہام دنیا بھر میں ایک سنگین خرابی ثابت ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں نشاۃِ ثانیہ اور اصلاح کی تحریکیں سیاسی جماعتوں نے نہیں بلکہ شاعروں، ادیبوں، فلسفیوں اور دانشوروں نے اٹھائیں۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے منشور ہمیشہ حصولِ طاقت کی چھپی ہوئی آرزوئوں کا معقول لباس ہوتے ہیں۔ عصری سیاسی سماجیات بظاہر ان سوالات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ہمارے مسائل پاور پالیٹکس اور سماجی حرکیات کے محور تک محدود نہیں بلکہ جزوی طور پر یہ سماجی تعلقات کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں، سماجی تحریکوں کی تنظیم کے اثرات اور عالمگیریت کے نتیجے میں ریاست کے نسبتاً کمزور ہونے کی پیداوار ہیں۔ اس وقت ہماری آزادی قانون نہیں چھین رہا بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل اس کا ذمہ دار ہے۔ بیشک اخلاق کا نصب العین امن ہے لیکن بقا کی آزمائش جنگ ہے۔ ہمیں اپنے زمانے کے تقاضوں کا ادارک ضرور ہونا چاہئے۔ زمانے کے بطن میں پنہاں اسرار کو بے حجاب کرنے اور زندگی کے دھارے کو ہموار رکھنے کیلئے خاموش مزاحمت ناگزیر ہوتی ہے اور یہی ری امیجنگ پاکستان کے فلسفے کی روح ہونی چاہئے۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: