اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بدقسمت زبان کا بڑا ادیب اور ہذیان کا میجک ریئلزم||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو ادیب ہر قسم کی سیاست، سماجیات، فرقوں، مذاہب، نظریات، اصلیت پر تنقید سے گریز کے واہمے میں مبتلا یہ نہیں جانتا کہ یہ گریز ہی اُس کی اصل بن گئی ہے۔ وہ سامنے کھڑے گینڈوں کو چھوڑ کر نامعلوم وائرسوں کی شناخت کرنے کی بجائے اُن کے مفروضاتی اثرات کو پیش کرنے کی سعی میں لگ گیا۔ اُسے یہ نہیں معلوم تھا کہ فرد کے بغیر ہمہ گیریت کا شوق ویسا ہی ہے جیسے کرۂ ارض کے بغیر کائنات کا تصور – یعنی جب سوچنے اور بیان کرنے والا زاویۂ نگاہ ہی نہیں تو منظر کیسے ہو؟ وہ ہو سکتا ہے، ہم سے باہر، لیکن ہمارے لیے نہیں۔
اردو والوں کا ’کلچر‘ ہی کلچر سے عاری ہے۔ یہ ایک بڑا سا شامیانہ ہے جس میں کوئی رخنہ، کوئی طنابیں اور کوئی کھمبا نہیں۔ لہٰذا ہمارے اُردو ادیب سے پوچھیں کہ آپ کس سیاسی جماعت، نظریے، فرقے اور گروہ کے حامی ہیں؟ تو وہ کہے گا: ’’دیکھیں میری ایک ہی سیاسی جماعت ہے، وہ ہے پاکستان، میرا ایک ہی دین ہے، وہ دین ہے نیکی اور بھلائی……‘‘ وعلیٰ ہٰذا لبکواس۔ اُسے کون بتائے کہ ہمہ گیر یا یونیورسل انفرادیت کا متضاد نہیں بلکہ اُس کا پیراڈائم یا سمت نما ہے۔ جدیدیت کی بنیادی سیاسی صورت بذات خود فرد اور ہمہ گیر کے درمیان ایک بے چین مذاکرات ہے۔
دوسری طرف پنجابی ادیب بھینسوں کے سینگوں، چارے کے کھیتوں، کماد، گُڑ، پِنیوں، اللہ وسایا اور کھیتوں تک ہی محدود ہو گیا۔ اُس نے ٹھکرائی گئی شناخت کو ہی جتانا اپنی غایت مان لیا۔ ایسے میں ایک ہی سر پھِرا پنجابی ادیب بنا۔ وہ بیسویں صدی کا پروردہ اور اکیسویں میں گم ہے۔ خالد محمود المعروف بہ نَین سکھ کے دو افسانوی مجموعوں اور تین ناولوں کے بعد ایک نیا ناول ’’وبا تے وسیب‘‘ اردو اہلِ قلم کو نئی دعوتِ مبازرت ہے۔
ہم شرمندگی میں بھولنا چاہتے ہیں کہ تین سال قبل ایک وبا کووڈ 19 کے احیا پر ہم نے موت اور زندگی کے کیسے کیسے مخمصوں کا مقابلہ کیا۔ ہم سب پریشان تھے، روزانہ موت سامنے دیکھتے، سٹاپ واچ کی مدد سے بیس بیس سیکنڈ تک سانس روک کر آہستہ آہستہ روکتے اور فاتحانہ انداز میں کامیابی کے متعلق گھر والوں کو بتاتے، ایک چھینک ہم سے ابدیت چھیننے لگتی، ہم سبزی خریدنے پر گیراج میں گاڑی کی چھت پر دھوپ میں رکھ چھوڑتے کہ وبا کے جراثیم مر جائیں، ہم پھلوں کو صابن سے دھوتے، نوٹ کو بھی صابن والے پانی میں ڈبو کر تیز گرم اِستری سے خشک کرتے، دروازوں کے ہینڈلوں پر صابن والی ٹاکی مارتے، ماسک اور سینی ٹائزر کی بوتل کو گدڑ سنگھی کی طرح حاصل کرتے۔ ہم نے سیکس کرنا بھی چھوڑ دیا، الگ الگ کمروں میں سوتے، پھر کچھ دن سانس پر اعتبار قائم ہوتا تو انگریزی سٹائل میں مجامعت کر بھی لیتے کہ چلو اِس طرح ایک دوسرے کے منہ سے تو دور رہیں گے۔
ہم رات کو بچوں سے نظر بچا کر ویب سائیٹس پر اٹلی، ایران، یورپ امریکہ میں مرنے والوں کا سکور کارڈ دیکھتے، گرم پانی کی بھاپ لینے کے طریقوں کو ذہن میں پکاتے۔ ہماری راتوں میں مساجد کے سپیکروں سے نکلتی ہوئی ہیبت ناک آوازیں گونجتیں، حالانکہ لوگ معمول سے کم مر رہے تھے۔ منحوس مُلا اگلی زندگی کی اہمیت پر مزید زور دینے لگے۔
بہت کچھ پرکھا گیا۔ ہمارے تصورات، واہمے، ہمارے یقین اور عقیدے، جانے پہچانے سماجی رویے اور ڈھنگ سب کچھ چیلنج ہوئے۔ ہم دجال اور قیامت کے ہردم منتظر لوگ اپنی نجی قیامتوں کو سر پہ منڈلاتے محسوس کر کے دَنگ تھے۔ ہماری زندگی ٹوٹی ٹانگ والے گدھے کی طرح دریچوں کے نیچے کھڑی تھی۔ ایسے میں نین سکھ چپکے سے اِس روزمرہ ابتلا کو لکھتا اور ریکارڈ کرتا رہا۔ ادیب کا کام یہی ہے۔ وہ کسی انقلاب یا تبدیلی کی بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ صرف جاری تبدیلی یا جمود کو ریکارڈ کرتا ہے۔
اب نین سکھ نے یہ ناول لکھا ہے، ایک بدقسمت زبان میں، ایک مفقود قاری کے لیے۔ میں مصنف کا مداح بھی ہوں اور پرستار بھی۔ لیکن میں یہ کہنے سے قاصر ہو کہ کتاب ترنجن لاہور کے شائع کردہ اِس ناول کو پڑھیے گا۔ کیونکہ آپ نہیں پڑھ سکتے۔ آپ کو نین سکھ کے میجک ریئلزم تک پہنچنے کے لیے زبان کی فصیل پر چڑھنا پڑے گا۔ اُن کی زبان پر ایک آکاس بیل چڑھ چکی ہے۔ اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ اپنی زبان سیکھے۔ سکرول کر دیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: