نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ والوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ گزشتہ برس کے اپریل میں عمران حکومت کو ہٹانے کے بعد فوری انتخاب سے گریز نے انہیں ڈھلوان پر دھکیل رکھا ہے۔ اس کے انجام پر کوئی نئی راہ دکھاتی پگڈنڈی موجود نہیں ہے۔ فقط ایک گہری کھائی ہے جس سے باہر آنے سے نکلنے کی اذیت ومشقت طویل عرصے تک برداشت کرنا ہو گا۔
سیاستدان اگر اپنی قوت کے بارے میں پر اعتماد ہو تو انتخابات سے کبھی نہیں گھبراتا۔ مسلم لیگ (نون) نے وفاق میں حکومت سے چپکے رہنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو عمران خان کو پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے روکنے میں توانائی ضائع کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تحریک انصاف چودھری پرویز الٰہی کو مذکورہ فیصلہ لینے کو مائل کردیتی تو انتخابی مہم کا نیا میدان کھل جاتا۔ بہتر یہی تھا کہ اپنی توانائی کو اس میں کھیلنے کے لئے بچالیا جاتا۔ جرات سے نئے انتخابات کا خیرمقدم کرنے کے بجائے مسلم لیگ (نون) نے مگر پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں روڑے اٹکانا شروع کر دئے۔ اپنے لگائے گورنر سے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کو مجبور کر دیا۔
پرویز الٰہی کو اس راہ پر دھکیلتے ہوئے مسلم لیگ (نون) کے ”کائیاں اور تجربہ کار“ نابغے یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ مذکورہ فرزند گجرات نے ”بندے پورے کرنے“ کا ہنر 1980ء کی دہائی سے خوب سیکھ رکھا ہے۔ جنرل ضیاء نے اس دہائی میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے سرکاری سرپرستی کے محتاج سیاستدانوں کو ”بلدیاتی سیاست“ میں مصروف رکھا تھا۔ دھڑے، ڈیروں اور برادری کی بنیاد پر ”چودھری“ کہلاتے یہ افراد ”ضلع کونسلوں“ پر کامل قبضہ جمانے کو بے قرار رہا کرتے تھے۔ اپنے شریکوں کو ”تحریک عدم اعتماد“ وغیرہ کے ذریعے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔”اپنا کلہ“ مضبوط رکھنے کا ہنر چودھری پرویز الٰہی نے اس دہائی ہی میں اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ان کا سیکھا ہنر 1985ء سے 1997ء تک نواز شریف کی بنائی مسلم لیگ کے بہت کام آتا رہا۔
چودھری صاحب کو با لآخر یہ محسوس ہونا شروع ہوا کہ ان کے ہنر کو محض استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی محنت سے لگائی گیم جب کامیاب ہوجاتی ہے تو اقتدار کی پگ غلام حیدر وائیں یا شہباز شریف کے سر پہنادی جاتی ہے۔دل ہی دل میں کڑھتے اچھے دنوں کا انتظار کرتے رہے۔ بالآخر اکتوبر 1999ء میں جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوئے اور چودھری پرویز الٰہی کو ”خودمختار“ ہونے کا مناسب ماحول میسر ہو گیا۔ بعدازاں وہ 2002ء سے 2007ء تک پنجاب کے تگڑے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ مذکورہ حیثیت میں انہوں نے افسر شاہی کے علاوہ ریاست کے دیگر اداروں میں سرپرستوں اور سہولت کاروں کا ایک موثرگروہ بھی جمع کر لیا۔
اس امر سے چودھری پرویز الٰہی بخوبی واقف تھے کہ گورنر کا خط مل جانے کے بعد ان سے پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ ہر صورت حاصل کرنا ہو گا۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔”نیویں نیویں“ رہتے ہوئے اپنے بندے پورے کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئے۔ دریں اثناء مسلم لیگ (نون) اور اس کے ہمنوا اس گماں میں مبتلا ہو گئے کہ تحریک انصاف میں شامل روایتی سیاستدانوں کی کماحقہ تعداد کو یہ فکر لاحق ہے کہ وہ جنہیں ”مقتدر قوتیں“ کہا جاتا ہے عمران خان صاحب کو اقتدار میں لوٹنے نہیں دیں گے۔ ایسے لوگوں سے روابط کے بعداپنے تئیں طے کرلیا کہ پنجاب حکومت کے ”15 سے 20“ اراکین صوبائی اسمبلی پرویز الٰہی سے ٹوٹ چکے ہیں۔ دل کو خوش رکھنے والا یہ منظر نامہ تشکیل دیتے ہوئے وہ یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ ووٹوں کے محتاج سیاستدان اب ”لوٹا“ کہلانے سے گھبرانا شروع ہو گئے ہیں۔ فوری انتخاب نہ بھی ہوں تو انہیں رواں برس کے اکتوبر کے بعد ٹالنا بہت دشوار ہو جائے گا۔ عمران کو ”دغا“ دینے کے بعد صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن نئے انتخاب کو فقط ڈیرے اور دھڑے کی بنیاد پر بآسانی جیت نہیں پائے گا اور مسلم لیگ (نون) کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت نہیں۔ذاتی طورپر ایسا رکن جوبھی سوچ رہا ہو فی الحال عمران خان صاحب کے بیاینے کو برملا للکانے کی سکت سے محروم ہے۔چودھری پرویز الٰہی نے مذکورہ حقیقت پر کامل توجہ مرکوز رکھی۔
ان کے برعکس محلاتی سازشوں پر تکیہ کرنے والے کھلاڑی یہ جان کر مزید پراعتماد ہو گئے کہ ایف آئی اے چودھری پرویز الٰہی کے فرزند کو ”منی لانڈرنگ“ کے الزامات کے تحت گھیرے میں لانا شروع ہو گئی ہے۔ مونس الٰہی کی سپین سے ”اچانک“ لندن روانگی نے ان کی خوش گمانیوں کو مزید تقویت پہنچائی۔ سینہ پھلا کر اصرار کرنا شروع ہو گئے کہ چودھری پرویز الٰہی کے لئے ”ستے خیراں“ یقینی ہوتا تو ان کے فرزند اور سیاسی وارث ”جند بچانے“ کو لندن میں قیام پذیر ہونے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔
ایف آئی اے کی ”اصل اوقات“ کا تاہم چودھری پرویز الٰہی کو بخوبی علم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے ان کا خاندان”مقدمہ بازی“ سے نبردآزما ہونے کے سو ڈھنگ سیکھ چکا ہے۔ قابل وکلاء کی مدد سے وہ عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کے راستے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ بدھ کے روز پنجاب اسمبلی سے جڑے سوالات کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے چند عزت مآب ججوں نے جو ریمارکس دئے انہوں نے چودھری پرویز الٰہی کو جبلی طورپر قائل کر دیا کہ بطور وزیر اعلیٰ انہیں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہو گا۔
اس ضمن میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے انہوں نے عمران خان صاحب کے بھرپور خطاب کا بندوبست کیا۔ مذکورہ خطاب کے دوران سابق وزیر اعظم نے جارحانہ انداز میں اپنی ذات اور جماعت کے خلاف مقتدر قوتوں کی لگائی مبینہ ”ریڈ لائن“ کو للکارا۔ تحریک انصاف کے ممکنہ ”باغیوں‘ ‘کو خبردار کرنے کے لئے وہ انداز بہت کارگر ثابت ہوا۔ اس کے بعد ٹیلی فون کھڑکنا شروع ہو گئے اور مطلوبہ افراد پنجاب اسمبلی میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کے لئے سفر پر روانہ ہو گئے۔ چودھری پرویز ا لٰہی کے مخالفین کو ”غیبی مدد“ میسر نہ ہوئی۔”ان“ کا ”نیوٹرل“ ہونا بھی ثابت ہو گیا اور بالآخر چودھری پرویز الٰہی نے اپنے بندے گنوا دیے۔
سوال اب یہ اٹھے گا کہ خود کو پنجاب اسمبلی کا بااعتماد وزیر اعلیٰ ثابت کرنے کے بعد چودھری پرویز الٰہی صوبائی اسمبلی کی فوری تحلیل کو رضامند ہوں گے یا نہیں۔ مسلم لیگ (نون) اور اس کے ہمنواﺅں کے لئے اپنی رہی سہی عزت بچانے کے لئے ممکنہ تحلیل پر اصرار کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا۔ وہ ہارا ہوالشکر بن چکے ہیں۔ازخود کسی سیاسی پیش قدمی کے قابل نہیں رہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر