اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حنا کا ہری یوپیا||یاسر جواد

حنا کا ذہن ژولیدہ اور پرپیچ ہے۔ وہ پڑھنے والے سے تقاضا کرتی ہیں کہ بیان کو سمجھنا ہے تو ذرا توجہ سے پڑھیں۔ ورنہ سِرا ہاتھ سے چھوٹ جائے گا۔ کہانی کو بامعنی بنانے میں لکھنے والے کی طرح پڑھنے والے کا کردار بھی ہوتا ہے۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول لکھنا ایک بہت ہی سنجیدہ اور مشکل کام ہے۔ اِس میں آپ ایک پوری نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ شروع میں یہ دنیا نئی دیکھی ہوئی اور انوکھی سرزمینیں ہوا کرتی تھیں۔ بیسیویں صدی میں شاید ہی کوئی علاقے ’’نئے‘‘ اور انوکھے یا ان دیکھے رہ گئے۔ ہم مڈغاسکر سے لے کر انٹارکٹکا تک سبھی سے واقف ہو گئے۔ چنانچہ چشم تخیل سے کام لے کر پہلے گزر یا دریافت ہو چکی جگہوں کو نئے سرے سے بیان کرنے کو اہمیت حاصل ہوئی اور یہی ناول کا مرکزی وصف بن گیا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں کمپیوٹر اور موبائل کی یلغار نے ناول کو غیر ضروری سا بنانے کا خطرہ پیدا کیا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس رجحان میں ایک عارضی وقفے کے بعد دوبارہ تیزی پیدا ہوئی۔ جے کے رولنگ ہو یا پاؤلو کوئیلہو یا گارسیا مارکیز، کہانی اور ناول کو ایک نئی مقبولیت ملی۔ شاید یہ صنفِ تخلیق فارغ کی بجائے مصروف ذہن کے لیے زیادہ ضروری ہے۔ یہ ہم سب کی زندگیوں، علاقوں اور آس پاس گزر چکے لوگوں کی کہانیوں کے سادہ بیان جیسے ہوتے ہیں۔
حنا جمشید نے خصوصی محنت کے ساتھ ہڑپہ اور موہنجودڑو کی تہذیبوں کو مائیکرو سطح پر بیان کیا ہے۔ یہ ایک تخلیقی ’’کاوش‘‘ نہیں، بلکہ ایک ناول ہے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں چادر لے کر ہڑپہ میں اینٹوں کے ڈھیروں پر بیٹھی ہوں گی تو شاید سوچتی رہی ہوں کہ یہاں کبھی چلنے پھرنے والے لوگ آپس میں کیسے باتیں کرتے، سوچتے اور زندگی گزارتے ہوں گے۔
کوئی پچیس اٹھائیس سال قبل مجھے اپنے دوست عاصم بٹ کے ہمراہ ڈی جی خان انٹرویو کے لیے جانے کا اتفاق ہوا تو واپسی پر ہم یونہی آوارگی میں چیچہ وطنی اُتر گئے اور ہڑپہ دیکھنے چلے گئے۔ اینٹوں کی منظم ڈھیریوں کے درمیان گدھے پھر رہے تھے۔ ہم بھی پھرے۔ کوئی بھی شخص کوئی اینٹ یا روڑا اُٹھا لیتا، کوئی پروا نہیں تھی۔ میں وہاں سے ایک اینٹ کا ٹکڑا بطور یادگار اُٹھا کر لایا تھا۔ حنا جمشید وہاں سے زندگی کا احساس لائی ہیں اور آپ کو اِس ناول کے ذریعے اُس کی دھڑکن محسوس کرواتی ہیں۔
ہڑپہ کی کھدائی انگریز محققین، بالخصوص سر جان مارشل نے کی تھی۔ یہاں کی زیادہ تر اہم مصنوعات اور کاریگری کے نمونے لاہور اور یورپ کے عجائب گھروں میں پہنچے۔ اُنھیں بنانے والوں کی خاک یہیں رہ گئی اور حنا اُن کی وارث ہونے کا دعویٰ جتانے کے قابل ہوئیں۔ تغاروں میں پڑی مٹی کی خوشبو نے اُنھیں وارفتہ کر دیا۔
حنا جمشید نے اپنی سوچ کے پیچیدہ تانے بانے میں وہاں کے لوگوں کو چلتے پھرتے، باتیں کرتے اور زندگی گزارتے پیش کیا۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک NOVEL ہے۔ یعنی ایک انوکھے اور دلچسپ جہان کی روئیداد۔ انجان ملک یا دور کا بیان پڑھنے میں ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس موازنے اور تصدیق کے لیے کوئی کسوٹی نہیں ہوتی اور فائدہ یہ کہ آپ آزادی کے ساتھ تخیل اور تخلیقی صلاحیت سے کام لے سکتے ہیں۔ حنا نے یہ فائدہ اُٹھایا۔ ایک اور مشکل اور فائدہ یہ ہے کہ اِنکا اور مایا والوں کی طرح ہڑپہ اور موہنجودڑو والوں نے بھی کوئی تحریر نہیں چھوڑی تھی۔ بس کچھ مہریں تھیں جو حنا کا ایک کردار اپنی مٹھی میں دبائے پھرتا ہے۔ چنانچہ حنا کی مرضی تھی کہ کرداروں کے منہ سے گنگاجمنا مووی کے دلیپ کمار والے انداز میں ڈائیلاگ کہلواتیں یا راجستھانی فلمی کرداروں والی زبان بلواتیں (یہ ایک بالکل الگ اور بھرپور موضوع ہے)۔ ہندی کے عام بول چال والے الفاظ کے علاوہ آپ کو فارسی تراکیب والے جملے بھی ملیں گے، جو شاید بے جا لگیں لیکن اِس اعتبار سے موزوں بھی قرار دیے جا سکتے ہیں کہ وادیِ سندھ اور فارس کی تہذیبیں ہر طرح کے قریبی بندھن رکھتی تھیں۔
حنا کا ذہن ژولیدہ اور پرپیچ ہے۔ وہ پڑھنے والے سے تقاضا کرتی ہیں کہ بیان کو سمجھنا ہے تو ذرا توجہ سے پڑھیں۔ ورنہ سِرا ہاتھ سے چھوٹ جائے گا۔ کہانی کو بامعنی بنانے میں لکھنے والے کی طرح پڑھنے والے کا کردار بھی ہوتا ہے۔
بک کارنر جہلم کی شائع کردہ کتاب بہت اچھے معیار کی ہے۔ جلد کا گتا اتنا موٹا ہے کہ اگر میں کوئی منفی بات کرتا تو حنا کی سہیلیاں میرے سر پہ مارتیں اور مجھے چوٹ لگتی۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: