مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لڑکیاں اچانک لمبے بال کیوں کٹوا لیتی ہیں؟||حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عورت بال کٹوانے لگے تو سمجھ لو کہ ایک طوفان تھا، آ کے گزر گیا۔

تمہیں کیوں نہیں پتہ چل سکا؟ تم نہیں تھے وہاں، اس آندھی میں، ان تھپیڑوں میں، اس جوار بھاٹے کے درمیان، لہروں میں — تم تھے ہی نہیں۔

تم نے تو نوٹس بھی نہیں کیا۔ تم نے پوچھا کٹوا لیے؟ اس نے بولا ہاں، تم نے تعریف کر دی اس نے وصول کر لی — اب کیوں سوچ رہے ہو؟

ہاں تم نے منع کیا ہو گا۔ مت کٹواؤ، لمبے اچھے لگتے ہیں بال، گھنے ہیں، ابھی سوٹ کرتے ہیں، پتہ نہیں کیسے لگو گی، لمبے بالوں پر شاعری سنائی ہو گی، بنگالی عورتوں کا بتایا ہو گا، چینج سے ڈرایا ہو گا؟

چینج — یہی ہے۔ کسی چیز پہ جب نہیں چلا اور ادھر بس چل گیا تو اس نے بھی چلا لیا۔ یہ بال نہیں کٹے پچھلے سمجھ لو پانچ سال کٹ گئے، جھڑ گئے، کندھوں پر سے اتر گیا بوجھ۔

لیکن تم نہیں سمجھ سکتے، دیکھو، تمہارے لیے حالات سے لڑنے کے طریقے اور بہت سے ہیں۔ تم فرار ہو سکتے ہو، تم بازوؤں میں چھپا سکتے ہو چہرے کو یا الٹے پیر بھاگ سکتے ہو۔

اس کے پاس آپشن کوئی نہیں تھا۔ تم پھر بھی نہیں سمجھے۔ اس لیے شاید کہ تم ایسی جگہ کبھی کھڑے ہی نہیں ہوئے جہاں تمہارے پاس آپشن کوئی نہ ہو، پچھتاوے ہوں اور تمہیں سر جھٹک کے نکلنا بھی ہو۔

اگلی صبح اٹھنے کے لیے، نئی کچہریاں بھگتانے کے لیے۔ اتنی لمبی کیوں گھسیٹ لی کہانی؟

اس لیے کہ سوال بعض اوقات ایسے جوابوں میں لپیٹ دیے جاتے ہیں جیسے تم سننا چاہتے ہو۔ اب تم کو یہ کون سمجھائے کہ بس، دل بھر گیا۔ دل کیوں بھرا تم پوچھو گے اور جواب وہی جو تم نہیں سننا چاہتے۔

تمہیں پتہ ہے وہ خود کتنا اپ سیٹ ہوئی تھی جب پہلی بار اس نے بال کٹوائے تھے؟ اسے پتہ بھی نہیں تھا لیکن لمبے بال اس کی شناخت بن چکے تھے۔

لڑکی ہو؟ بال تو لمبے گھنے ہوں گے ہی۔ یہ ‘ظاہری سی بات’ جھٹلانے کے پہلے سیکنڈ اس نے کیا خوف اور بعد میں کتنا دکھ محسوس کیا تھا، تمہیں اندازہ ہے؟ تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ بال کٹنے کے تین دن بعد کتنا طاقت ور محسوس کر رہی تھی۔

جب سیمسن کی طاقت اس کے بالوں میں ہو سکتی ہے تو ڈیلائلہ بوائے کٹ میں کیوں پاور فل محسوس نہیں کر سکتی؟

یہ اس کا سسٹم ری سیٹ تھا، الارم تھا، اشارہ تھا، تم نے کب سنا؟ اب یاد آ رہا ہو گا؟ ہاں؟ جوڑو — کڑیاں جوڑتے جاؤ کہانی کھلتی جائے گی۔

یہ فارمولا میں ہر عورت پہ اپلائے نہیں کر رہا، خوش قسمت ہوں، میری اپنی ماں کے بال بوائے کٹ تھے ہمیشہ، اسی کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہوں۔

کسی کو چھوٹے بال اس لیے بھی پسند ہو سکتے ہیں کہ لمبے بالوں کا کھلارا بہت ہوتا ہے۔ مصروف عورت کے پاس یہ لانجھے پالنے کا وقت نہیں ہوتا۔ صبح سر دھویا اور رات تک جڑیں گیلی ہیں، گردن بھاری ہے، سر پہ بوجھ ہے۔

ان کا یہ ذاتی مسئلہ ہے — اور تمہاری پسند وہ سر پہ اٹھا کر کیوں گھومیں بھئی؟

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خواہ مخوا کی ‘نسوانیت’ چوبیس گھنٹے نہ اٹھانا چاہتی ہو۔ جن پیمانوں پہ تم ایک عورت کو پرکھتے ہو ان سب کا بوجھ جانتے ہو؟

 

بشکریہ :انڈیپینڈنٹ اردو

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: