اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صابر ظفر ناراض نہیں ہوتے||یاسر جواد

یہ ہمارے نقادوں کو کیا مسئلہ ہے صابر صاحب؟ ایک مانے ہوئے شاعر کے متعلق کہنا کہ وہ نئے خیالات لاتا ہے، اور تخلیق کا جذبہ رکھتا ہے، تحیر کے ابواب کھولتا ہے، کیا یہ نقادی صرف یہی بتانے کے لیے ہے؟ یا پھر محض کچھ لکھنے سے گریز کی خاطر یہ انداز اختیار کیا جاتا ہے؟ چار سطروں کے بعد چند ’منتخب‘ اشعار دیے، اُن میں ٹانکے لگائے اور ہو گیا دیباچہ تیار! بس؟ نقاد کی آنکھ صرف اپنے اندر ہی کھلتی ہے یا شاید وہ بھی نہیں؟

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ افضال احمد سید سے ملے ہو ں گے تو ذکر کیا ہو گا کہ نیا شعری مجموعہ آرہا ہے، چار سطریں لکھ دیجیے گا۔ یا پھر افضال احمد سید نے خود کہا ہو گا کہ تازہ شعری مجموعے پر چار سطریں وہ لکھیں گے۔ مگر نتیجہ یہ ہے کہ افضال احمد سید نے واقعی صرف چار سطریں لکھ کر دے دیں، جن میں سے دو یوں ہیں:
’’….اُس کا پہلا شعری مجموعہ آج تک بادۂ شعروسخن کے نشۂ صد استوار سے مست ہے اور یہ سرشاری تخلیق کے سیلِ بے پناہ میں پناہ لیتی ہے، تازہ بہ تازہ نو بہ نو خیالات کو الفاظ میں قید کرتی ہے۔ تحیر کے ابواب کھولتی ہے، تجربوں کی جرأت عطا کرتی ہے اور……۔‘‘
یہ ہمارے نقادوں کو کیا مسئلہ ہے صابر صاحب؟ ایک مانے ہوئے شاعر کے متعلق کہنا کہ وہ نئے خیالات لاتا ہے، اور تخلیق کا جذبہ رکھتا ہے، تحیر کے ابواب کھولتا ہے، کیا یہ نقادی صرف یہی بتانے کے لیے ہے؟ یا پھر محض کچھ لکھنے سے گریز کی خاطر یہ انداز اختیار کیا جاتا ہے؟ چار سطروں کے بعد چند ’منتخب‘ اشعار دیے، اُن میں ٹانکے لگائے اور ہو گیا دیباچہ تیار! بس؟ نقاد کی آنکھ صرف اپنے اندر ہی کھلتی ہے یا شاید وہ بھی نہیں؟
البتہ نقاد نے یہ نشان دہی بھی کر دی کہ غزلیں نامانوس اوزان والی ہیں، چلیں مان لیا، آپ کے جملے کیوں اتنے مانوس اور بے عمق ہیں؟
مجھے عروض تولنے اور وزن ناپنے کی سہولت میسر نہیں، سو میں کنٹنٹ پر توجہ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
صابر ظفر صاحب کو اپنی بے زبانی کا شکوہ اور دکھ ہے، مگر بے باک انداز میں بات کہنے کی جسارت پر فخر بھی۔ شاید اُردو غزل کے سانچے نے یہ بے زبانی پیدا کی ہو، اور کچھ کہے جانے کے امکان کو بھی مسدود کر دیا۔ اس نے ہمیں اتنا لمبا عرصہ ’’پابند‘‘ رکھا کہ ہم یہ تک بھول گئے کہ کہنا کیا تھا!
ایک لہر کی چھاگل میں کہیں کہیں مزاحمت کا جذبہ ہے، مگر کس کے خلاف؟ اب کھل کر بات کرنی چاہیے، لکھے گئے لفظ کو اہمیت نہیں رہی۔ ہمارے عین سامنے جو اتنی برہنہ کدورتیں اور دھاڑتی ہوئی بدصورتیاں اور کراہتی ہوئی بے بسیاں کھڑی ہیں، اُن سے کون نمٹے گا؟ وہ راشدی خنجر اور غالب کی تنک کہاں ہے! کوشش کریں تو اپنی بے زبانی کا شکوہ کرنے کی بجائے شکوے کو زبان دینا ممکن ہے۔
محض ناک میں چھلا لٹکا کر اور آنکھیں مٹکا کر پڑھنے والی شاعرات اور اُچھلنے والے بوزنہ شاعروں کے دور میں صابر ظفر جیسے شاعروں کا چھپتے رہنا ہمت افزا ہے۔ اُن سے صرف ایک بار ملا ہوں۔ دو تین بار فون پر بات ہوئی۔ وہ ناراض نہیں ہوتے۔ اُن کی بے زبانی کے احساس کا کچھ اندازہ ہے۔ وادیِ سندھ سے الگ رہ کر کوئٹہ، ژوب، تمپ کی طرف دیکھنے کی وجہ بھی کچھ معلوم ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: