مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یادوں کی زنبیل سے ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم عصرکے وقت سے ریاض احمد خان کورائی کے ڈیرے پر جمع تھے۔ ظفر اقبال جتوئی، میاں رشید احمد دین پوری، مختارخان کورائی اور کچھ دوسرے دوست و عزیز، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء جوبن پر تھا۔ کچھ عرصہ قبل ہی میں ایک طویل قیدوبند کے بعد رہا ہوا تھا۔ اس لئے بھی دوستوں کا ہجوم جمع تھا۔ ہر شخص کرید کرید کر یہ سوال پوچھ رہا تھا۔ بخاری قلعہ میں کیا ہوا جیل اور تفتیش کے مراحل بارے سوالات تھے۔

شام ڈھلنے کے ساتھ دوست ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگے۔ پھر اچانک پروگرام بنا کہ کھانا کھانے کے لئے صادق آباد چلتے ہیں۔ صادق آباد کیوں ادا؟ میں نے ریاض خان کورائی سے پوچھا۔ بخاری اج تیکوں سجی (بلوچستانی ڈش) کھویندے ہیں۔

لیجئے قافلہ خانپور کی منظور کالونی سے صادق آباد کے لئے روانہ ہوگیا۔ ظفر جتوئی، مختار خان، ریاض احمد کورائی، ننھے شہزادے اجمل خان ( محمد جمل خان اب اپنے اہل خانہ سمیت امریکی ریاست نویڈا میں مقیم ہے) منظور کالونی کے کورائی خاندان نے امریکہ اور پھر نویڈا کو لیاقت پور صادق آباد سمجھ رکھا ہے خصوصاً مرحوم بابا حاجی رحم علی خان اور مرحوم سردار منظور احمد خان کورائی کی کُل آل اولاد نے۔

ریاض احمد خان کورائی ظفر جتوئی اور ہم تینوں کے مشترکہ دوست اور بڑے بھائی لالہ عمر علیخان بلوچ مرحوم تھے۔ باہمی تعارف کا سبب بھی لالہ بلوچ اور ان کی سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ دوستیاں استوار ہوئیں۔

ریاض احمد خان کے خاندان میں ہمیں ان کے تیسرے بھائی کا درجہ حاصل تھا۔ تھا کیا اب بھی ہے۔ ظفر جتوئی کے والد بزرگوار مرید حسین خان راز جتوئی سے بھی احترام بھرا تعلق تھا۔ میں جب بھی خانپور جاتا ان کی قدم بوسی لازمی رہی۔ سرائیکی ان کا اوڑھنا بچھونا رہی آخری سانس تک۔ مجاہد جتوئی بھی انہی کے فرزند ہیں ۔

بھری جوانی کے کٹر قوم پرست اور غضب کے مقرر اب سادھوئوں جیسی زندگی جیتے ہیں۔ شہری زندگی سے بن باس نہیں لیا پھر بھی آجکل سادھو سادھو لگتے ہیں۔ دیوان فرید کا ایک ترجمہ انہوں نے بھی چند سال قبل کیا اس پر تنازع بھی اٹھا لیکن تنازعات تو زندگی اور وجود کے ہونے کی علامت ہیں۔

میں جتنے دن خانپور میں قیام کرتا رہائش بھائی ریاض خان کورائی کے ہاں ہوتی۔ میاں رشید احمد دین پوری نے بھی ریلوے کالونی میں دوستوں کے قیام کے لئے مستقل طور پر ایک کوارٹر کرائے پر لے رکھا تھا۔ اس کوارٹر کی چابیاں یوں سمجھیں ہند و سندھ کے دوستوں کے پاس تھیں۔

ریاض احمد خان کورائی جوانی میں ہی دنیا سرائے سے رخصت ہوئے ان کے بڑے صاحبزادے اکبر خان ماہر تعلیم ہیں۔ چین تک پڑھ پڑھاآئے ہیں۔ چھوٹے عامر خان کاروبار اور زمینداری کرتے ہیں۔ ریاض خان کے سب سے چھوٹے بھائی عمران ایک زمانہ میں حصول تعلیم کے لئے کچھ عرصہ شیخوپورہ میں ہمارے ہاں مقیم ہوئے۔ اب جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں

"ادا بخاری میں نے شیخوپورہ سے واپس آکر غلطی کی اس غلطی کا ازالہ اپنے بچوں کو تعلیم دلواکر کروں گا” ۔

اجمل کی اولاد میں ایک سے بڑھ کر ایک مہتاب ہے۔ ایک صاحبزادی ڈاکٹر ہیں، صاحبزادہ بھی ایم ایس سی دیگر زیرتعلیم ہیں ۔ بھلے وقتوں کے تعلق ہیں نبھ رے ہیں۔ آصف خان کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ دوستوں کے اکٹھ کا مستقل رکن اور یارباش بلوچ۔

ایک عرصہ تک لوگ مجھے خانپور کا ہی سمجھتے رہے بہت سارے اب بھی سمجھتے ہیں۔ غم روزگار اور حالات نے باندھ دیا۔ ایک زمانہ میں لاہور سے ہر ہفتہ خانپور جایا کرتے تھا۔ بدھ کی شب تیز رو ایکسپریس سے جانا اور جمعہ کی شب واپسی ہفتہ کی صبح ٹرین سے اتر کر سیدھا دفتر جہاں اگلے چار دن صبح سے شام تک کام ہی کام۔

اس شہر یار میں اور بھی دوست تھے۔ قاضی واحد بخش، شمس، قمر جتوئی ایک لمبی فہرست ہے دوستوں کی، کس کا ذکر کیجئے اور کس کا نہیں۔ وہ ہمارے پیارے عبداللہ خان بلوچ سماج سدھاری میں بڑا نام کمایا اس نے۔

یہ سطور لکھتے ہوئے مرحوم میاں انیس احمد دین پوریؒ یاد آئے۔ خانپور کا اجلا چہرہ تھے۔ صاحب مطالعہ دوستوں کا وسیع حلقہ، طویل عرصہ تک صحافت کے شعبہ سے منسلک رہے۔ اردو اور سرائیکی میں کالم بھی لکھتے تھے۔ رازی چوک پر میاں رشید کے ہوٹل پر ان سے تقریباً روزانہ نشست رہتی خوب محفل جمتی۔ کیا شاندار وقت تھا اب تو مشینی زندگی ہے ہر شخص کے اپنے مسائل ہیں۔

بقول مرحوم ریاض احمد خان ’’ہر شخص مسائل کے گڑدھال‘‘ میں پھنسا ہوا ہے۔ میری لاہور آمد کے بعد خانپور کی ہفتہ وار یاترا شروع ہوئی۔ بہت پہلے سالانہ چھٹیوں کا کچھ حصہ یہاں بسر کرنا واجب تھا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی ہم تو سجی کھانے صادق آباد جارہے تھے۔

گئے اور سجی بھی کھائی رات گئے واپسی ہوئی۔ کوٹ سمابا کے پاس پولیس چیک پوسٹ پر گاڑی روک لی گئی۔ نکے تھانیدار نے سوال کیا ’’ہاں بھئی منڈیو کون او تے کتھوں آندے پئے او تے جانا کتھے وے‘‘۔

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ریاض خان نے کہا ۔ صادق آباد گئے تھے سجی کھانے واپس خان پور جارہے ہیں۔ اب سوال ہوا ’’کون ہوندے او؟‘‘ جواب دیا کورائی بلوچ۔ تھانیدار نے کہا گڈی توں اتر آئو۔ ریاض خان دروازہ کھول کر باہر اتر گئے۔ پھر مختار خان سے سوال ہوا، تم کون ہو ؟ کورائی بلوچ اس نے جواب دیا ۔ چل فیر توں وی گڈی توں لتھ آ۔ اب ظفر جتوئی کی باری تھی ۔ تم کون او بھئی ؟ جی میں جتوئی بلوچ ہوں۔ چل فیر توں وی آجا۔ ظفر جتوئی بھی گاڑی سے اتر گئے۔

گاڑی میں، اب ہم اور چھوٹے بھائی اجمل خان رہ گئے۔ تھانیدار دوسری طرف سے فرنٹ سیٹ کی طرف آیا پہلے پیچھے دیکھا بولا، کاکا (اجمل ان دنوں غالباً ہائی اسکول میں پڑھتا تھا) توں بیٹھا ای رے ۔

پھر ہماری طرف متوجہ ہوا۔ اب ارشاد ہوا جی صوفی صاحب تسیں کون ہوندے او؟ میں نے لمحہ بھر سوچا پھر سنجیدگی سے کہا "سئیں میں بخاری بلوچ تھیندا”

تھانیدار نے ایک لمحہ ہمارے جواب پر غور کیا پھر قہقہے مارتا ہوا سڑک پر بیٹھ گیا۔ ہنسی رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی دو تین سپاہی بھاگ کرآگے بڑھے اور پوچھا ، سر جی کی ہوگیا وے۔ وہ جواب دینے کی بجائے ہنسے جارہا تھا۔ پھر اٹھااوراس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا، ہمارے گھٹنے چھوتے ہوئے کہا سید بادشاہ آج تساں مینوں لاجواب کردتا۔ جائو خوش وسو ہمیشہ۔

چلو بھئی بلوچو بہہ جائو گڈی اچ۔ مرشد نے اج تھانیداری لُٹ لئی وے ۔ سڑک پر کھڑے ریاض خان ، مختار خان اور ظفر جتوئی گاڑی میں براجمان ہوئے۔ تھانیدار نے سپاہی کو راستہ کھولنے کا کہا ہم خانپور کے لئے روانہ ہوگئے۔ اب نیا قصہ شروع ہوگیا ۔ مختارخان گلابی پنجابی میں ایک ایک سے پوچھتا رہا او بھئی منڈیو کون تھیندے او۔ سوال میرے جواب تک پہنچتا تو گاڑی میں قہقہوں کا طوفان آجاتا۔

اگلے دو تین دن تک ڈیرے پر دوستوں کی محفل کا مرکزی قصہ کوٹ سمابا کے پولیس ناکہ پر ہمارے جواب سے لگی رونق رہی ۔ یار لوگ خوب ہنستے۔ مجھ سے پوچھتے بخاری تمہیں سوجھی کیا۔ عرض کرتا میں سمجھا کہ بلوچ ہونا تھانیدار کی ’’چھیڑ‘‘ ہے۔ اس جواب پر ایک بار پھر ہنسی کے فوارے چھوٹ پڑتے۔

خانپور کے دوستوں کے خاندانوں کی تیسری نسل میں سے کسی کا آج بھی بخاری چچا ہوں۔ کسی کا ماموں بخاری، کچھ بچے جواب بڑے ہوگئے وہ اب بھی ادا بخاری کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ایک دن کسی نے ریاض خان اور اجمل خان کے ماموں سردار منظور حسین کورائی سے پوچھا، سردار صاحب یہ نوجوان بخاری کون ہے؟ کیوں کیا ہوا انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ جب یہ آتا ہے آپ کے بیٹے اور بھانجے سبھی اس کے گرد جمع رہتے ہیں

صبح شام سارے شہر میں دوستوں کا ہجوم گشت کرتا رہتا ہے۔ ماموں جان بولے، بخاری ہمارا بیٹا ہے، جتنے دن کے لئے آتا ہے ہمارے ڈیروں پر رونق لگی رہتی ہے۔ ہم بھی سکون سے رہتے ہیں کہ ان بچوں کو اب بخاری خود دیکھ لے گا۔

رونق میلے مستیوں بھرے دن دعوتیں۔ ایک ماموں زاد ہیں انور خان کورائی یہ بھی اب نویڈا امریکہ جابسے ہیں۔ ہم اپنے ڈیرے سے کسی بھانجے کو کہتے یار انور خان کو تو بلائو۔ بچہ واپس آکر کہتا انوں خان مانی (روٹی) کھارہا ہے۔

کچھ دیر بعد انوں خان بھی آپہنچتے ۔ کھانے میں مصروف۔ ہم لوگوں سے کوئی کہتا ’’انوں خان مانی کھاندیں‘‘۔ جواب ملتا بسم اللہ ودے ٹکرے دے پچھوں ہسیے‘‘۔ انکار تو اس نے کبھی نہیں کیا۔ کبھی کبھی چھیڑتے ہوئے کہتا یار انوں خان مانی تیکوں لگدی کیوں نئیں؟

ہنس کر کہتا "ادا بخاری جیویں اللہ دی مرضی” ۔

قاضی واحد بخش ہمارے ان دوستوں میں سے ہیں جنہوں نے پتہ نہیں کیا سفارش لڑارکھی تھی ہر ہفتہ خانپور سے ملتان پہنچ کر جیل ملاقات کے لئے آتے تھے۔

کسی زمانے میں ظفر جتوئی (ہم ابھی انہیں لالہ ظفر جتوئی کہتے ہیں) کو ہفتہ روزہ نکالنے کا بہت شوق تھا۔ ان کا خصوصی شوق شہر میں ہونے والے ہاکی کے سالانہ مقابلوں کے وقت ہاکی کے کھیل پر ایک رسالہ شائع کرنا ہوتا تھا۔

کئی بار تو ہم نے ان کے ساتھ مل کر رسالہ ترتیب دیا کئی بار ان کا حکم بھرا پیغام ملتا۔ بخاری فلاں تاریخ تک تمہارا مضمون مل جانا چاہیے۔

تعمیل کرنا پڑتی تھی اس لئے فوراً مضمون لکھتے اور انہیں بھجوادیتے۔ اس شہر دلنواز کی اور بھی بھری پُری یادیں بہت ہیں مگر کالم کے دامن میں گنجائش نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: