مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موٹیویشنل سپیکرز کس چیز کے لیے موٹیویٹ کرتے ہیں؟||یاسر جواد

اس ادبی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے بیگانگی یا alienation کے نتیجے میں ہم ایک absurd حالت سے دوچار ہو گئے۔ اب اس حالت کو مزید مضبوط بنانے اور اس سے فائدہ اُٹھانے والے لوگ میدان میں آگئے ہیں جو آپ کو نیکی اور اخلاق، تصوف اور ایمان داری کے کیپسول دیتے ہیں۔ عام زبان میں اِن کو موٹیویشنل اور کارپوریٹ سپیکرز کہا جا سکتا ہے۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان بننے سے پہلے عام انتخابات میں جب مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کی تو اُس میں زیادہ بڑا حصہ بنگال کا تھا۔ پنجاب اور سندھ نے بھی کچھ حصہ ڈالا لیکن یہاں یونینسٹ پارٹی، مجلس احرار وغیرہ بھی کافی نمایاں تھیں۔ لیکن بہت جلد یو پی کے لیاقت علی خان اور دیگر نے اُردو زبان کو سرکاری زبان بنا دیا۔ یہاں کے پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور پختونوں کی زبان دب گئی، اور وہاں بنگالیوں کی۔ پہلا بڑا جھگڑا اُردو زبان پر ہی پیدا ہوا جب بنگالیوں نے اِسے تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اگر صوبوں کی اصل قومی زبانوں کو عزت دی جاتی تو شاید فیڈریشن زیادہ مضبوط ہوتی۔
لیکن ہمارے ملک میں قوموں کو محض ’’ریجنل‘‘ یا علاقائی قرار دینے کا رجحان آج تک جاری ہے، اور اِس میں مزید شدت پیدا ہو رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ اصل قومی زبانوں کو غیر ضروری اور غیر علمی سمجھتے ہیں۔ ایسا خود بخود نہیں ہو گیا، بلکہ اِس میں باقاعدہ سرکاری پالیسی نے کام دکھایا۔
شاید مقصد یہ تھا کہ اِس طرح ایک یگانگت یا universality پیدا کی جائے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ یونیورسلٹی کی بجائے ایک بیگانگی یا alienation پیدا ہو گئی جو بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ بیگانگی ہمارے ادب، آرٹ اور علم ڈرامہ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ زیادہ تر فلموں اور ادب میں آپ کو شہروں کے نام تک نہیں ملیں گے۔ آپ کو پان اور پائجامے والے مہذب لوگ دکھائے جائیں گے جبکہ جاہل کردار پنجاب اور مزاحیہ کردار اکثر پختون یا سندھی یا سکھ ہوں گے۔ اوپر سے مولا جٹ جیسی فلموں نے تشدد اور خون ریزی کو بھی پنجابی کلچر سے جوڑ دیا۔
اس بیگانگی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہم چار پانچ سو کلومیٹر دور رہنے والے مختلف لوگوں کو بھی نہیں جانتے۔ ہمارے ادب میں آپ کو میل اور فی میل کردار دو مختلف قوموں کے بہت کم ملیں گے۔ ادب کو جس سوشل تجربے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس نہیں۔
اس ادبی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے بیگانگی یا alienation کے نتیجے میں ہم ایک absurd حالت سے دوچار ہو گئے۔ اب اس حالت کو مزید مضبوط بنانے اور اس سے فائدہ اُٹھانے والے لوگ میدان میں آگئے ہیں جو آپ کو نیکی اور اخلاق، تصوف اور ایمان داری کے کیپسول دیتے ہیں۔ عام زبان میں اِن کو موٹیویشنل اور کارپوریٹ سپیکرز کہا جا سکتا ہے۔ وہ ایک اجنبی زبان میں آپ کو اپنا آپ جتاتے ہیں، اُن کے لیے لکھنؤ کی تہذیب پنجاب یا بلوچستان کی تہذیب سے زیادہ قیمتی اور اہم ہے۔ حالانکہ وہ تہذیب اب لکھنؤ میں بھی نہیں رہی۔ یہ موٹیویشنل سپیکرز لفاظی اور خالی شاعرانہ پن اور فرضی قصوں سے آپ کو بہلاتے ہیں۔ انھیں سننے کے بعد آپ خود کو اہم کی بجائے بے وقعت سمجھتے ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ یہ موٹیویشنل سپیکرز کس چیز کے لیے موٹیویٹ کرتے ہیں۔ اِنھیں ڈی کوڈ کرنا سیکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم بھی اُسی رو میں بہہ جائیں گے جہاں دوسرے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں وہ آپ کو ایک خاص طرح کا نشہ لگاتے یعنی opiate کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ سننے میں تھوڑا مایوسی بھرا لگتا ہے، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ باشعور لوگ ہمیشہ حکمران طبقات کے پراپیگنڈا کے گھیرے میں ہوتے ہیں۔ پچھلے چند سال میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ مختلف قوموں کو ایک خاص قسم کے aesthetic کلچر کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنی تہذیب چھوڑ کر کوئی خاص ٹوپی یا لباس پہننا قومی فخر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ کلچر ایک نیا اخلاقی نظام بن گیا ہے جس کا رجحان یورپ سے آیا۔ کلچر کا بخار ایک نئی طرح کا نشہ ہے جس کی خاطر ہم بہت کچھ قربان کر رہے ہیں – یعنی اپنی تہذیب۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ اور ہم کوشش کر کے پاور سٹرکچرز کو تبدیل نہیں کر سکتے، لیکن ہمیں بطور انسان اپنے حالات کو ایک intelligent انداز میں سمجھنا سیکھنا ہی ہو گا۔ اِس سارے عمل میں زبان ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ساری دُنیا میں اِس پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ بیسویں صدی میں ہر اہم فلسفی کا تعلق زبان کے فلسفے سے ہے۔ چومسکی، دریدا، وٹگنسٹائن، فوکو، ٹیری ایگلٹن وغیرہ سب زبان کے فلسفی تھے۔ یہ آپ کو اور ہمیں ریاستی حربوں کو ڈی کوڈ کرنے اور ڈی کنسٹرکٹ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کو سمجھ لینا ہی اِن کی شکست ہے۔
آج کی تقریب میں میں پروفیسر سعید بھٹہ، محترمہ پروین ملک اور عابد ساقی ایڈووکیٹ کے ساتھ تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: