اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

 بیچارے کارکن ۔۔۔۔ || ارشاد رائے

ارشاد رائے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ،سیاست سمیت مختلف موضوعات پر انکی تحریریں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاکسار ایک سیاسی جماعت سے وابسطہ کارکن ہے لہٰزا آج اپنی کلاس کا نوحہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہے ، کسی بھی معاشرے ، سماج یا پارٹی کا قیمتی سرمایہ اس کے ادیب ، شاعر ، اہل دانش قلمکار ، کارکن اور فنکار ہوتے ہیں ، ماشااللّہ  الحمداللہ  لاالہ الا اللہ کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان میں نہ سیاسی جماعتوں کی کمی ہے نہ سیاسی رہنماؤں اور نہ سیاسی کارکنوں کی کمی ہے اور نہ اِس کی تشہیر کی ضرورت ہے، لہٰزا وطن عزیز میں کچھ کارکن ملک کی مین سٹریم یعنی بڑی پارٹیوں کا حصہ ہیں اور کچھ چھوٹی جماعتوں کے کارکن ہیں مگر ایک بات ہر چھوٹی بڑی پارٹی میں مشترک اور طے شدہ  ہے کہ یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کا امکان رکھتی ہو یا نہیں روٹی ، کپڑے اور دیگر حقوق کے خواب بیچتی ہو یا ووٹ کو عزت دو کا تانگہ چلاتی ہو  مذہب کا ٹھیلہ لگاتی ہو یا نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کا چنگچی چلاتی ہو یا اشتراکیت کا چورن بیچتی ہو ان کے سیاسی کارکنوں کی پہچان اور مقدر عمر بھر کارکن ہی رہنا ہے سیاسی پارٹی چاہے دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہو ان کی قیادتوں کیلۓ اصول پسند اور نظریاتی کارکنوں کی بجاۓ بزر جمہروں اور کاسہ لیسوں کو فوقیت دی جاتی ہے جو ہر موقف کے عین برعکس موقف اختیار کرنے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا ہنر اور صلاحیت سے بہرہ ور ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ نو دریافت نقطہ نظر کا فکری دفاع کرنے کا ملکہ بھی رکھتے ہوں آسان لفظوں میں ہر پارلیمانی لیڈر کے ساتھ نظریاتی کارکنوں کی بجاۓ حواریوں کا جم غفیر ہوتا ہے جن کا نظریہ صرف اور صرف مفاد پرستی ہوتا ہے اور پھر جب نظریات کے ماؤنٹ ایورسٹ پر براجمان پیپلزپارٹی کے ملک عاشق کھوکھر  ہوں عبدالرحمان مانی یا جماعت اسلامی کے عامر مسعود انصاری ہوں ، مسلم لیگ ن کے عابد انوار علوی یا تحریک انصاف کے ضمیر جعفری یا ان جیسے کئی اور جانثار کارکن ہوں صف نعلین سے آگے جگہ نہیں بنا سکتے ۔ کیونکہ مجلس رہبراں اہل ہوس سے کبھی خالی ہی نہیں ہوتی ۔
یہاں قیادت کے درجے تک پہنچنے کا بنیادی معیار و اصول لیڈر کی ذات سے شیفتگی ہے ۔ جب سے قیادت کے نذدیک کارکن کا معیار و اصول خوشامد وکاسہ لیسی ٹھہرا ہے تب سے نظریاتی کارکن بھی عنقا ہو چکے ہیں
میں سمجھتا ہوں کے کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن اس کی شان اور جلسے جلوسوں کی جان ہوتے ہیں ، یہ پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں آنسو گیس کے شیل اور واٹرکینن کے پانی کے سامنے سینہ تان کر  کھڑے ہو جاتے ہیں  تھانوں میں تذلیل اٹھاتے ہیں جیلوں اور عقوبت خانوں میں صعوبتیں برداشت کرتے ہیں  چوک چوراہوں پر کوڑے کھاتے ہیں ، مگر اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ کمیٹڈ رہتے ہیں اور زندہ ہے ، جیوے جیوے ، آوے آوے کے فلگ شگاف نعرے لگاتے رہتے ہیں ان کی قربانیوں کا حاصل اخبارات  سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی ذیلی سرخیوں میں گرفتار کارکنوں کی تعداد ہوتی ہے
اگر یہ لوگ کہیں کسی ہوٹل ، ہماچوں یا تھڑوں پر مل بیٹھیں تو مختلف حکومتوں میں اپنی قید وبند اور اسیری کے قصے ایسے سناتے ہیں جیسے گاؤں کی عورتیں اپنی زچگیاں گنواتی ہیں
پاکستانی تاریخ میں جانثار کارکن صرف بھٹو مرحوم اور ان کی بیٹی شہید بی بی کو نصیب ہوۓ اور دوسری بات یہ کہ پاکستانی تاریخ میں کارکنان سے عزت وشفقت سے پیش آنے والے بھی صرف بھٹو اور ان کی بیٹی تھیں ان کے بعد کارکنان کو وہ عزت مقام جو ان کا حق بنتا تھا کسی لیڈر یا سیاسی پارٹی نے نہیں دیا اور موجودہ دہائی میں تو کارکن نامی مخلوق آبی بخارات بن کر سیاسی منظر نامے سے دھواں ہوچکی ہے ۔ اب جبکہ سیاست اور سیا سی لیڈران میں نظریاتی زاویہ ختم ہو چکا ہے  تو سیاسی کارکنان کو کون پوچھتا اور سلام کرتا ہے اب تو بس سیاست جیسے نیک پیشے میں دولت اور دولت مند لیڈر وارد ہو چکے ہیں اور اپنی اپنی دف کے پیشہ ور گماشتوں کا ہجوم ساتھ رکھتے ہیں اور  اِن کی سماعتیں خوشامد جیسی میٹھی سریلی بانسری سننے کی عادی ہو چکی ہیں

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: