مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاوٹ ایک لعنت۔۔۔ || آفتاب احمد گورائیہ

لاہور میں ہمارے گھر کے پاس ایک دودھ فروش کی دوکان ہے جو چند سال پہلے ہی کھلی تھی۔ پورے دن میں اس کے پاس دودھ کی ایک گاڑی صبح کے وقت آتی ہے اور ایک شام کے وقت جس میں دودھ ہوتا ہے۔ یہ دودھ اس کی پورے دن کی سیل کی شائد پانچ فیصد ضرورت پوری کرتا ہو۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کوئی ستانوے اٹھانوے فیصد مسلمان آبادی والا ملک ہے۔ ہمارا دعوی ہے کہ ہم سے بڑا مسلمان روئے زمین پر موجود نہیں اور سرزمین عرب جس پر اسلام نازل ہوا ہم ان سے بھی بڑے مسلمان ہیں لیکن ہماری اخلاقی حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی چیز خالص مل جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ اتنی بڑی مذہبی معاشرت والا ملک اور کوئی ایک چیز ایسی نہیں جس میں ملاوٹ نہ ہو۔ جان بچانے والی دواؤں جیسی اہم ترین چیزوں سے لے کر مرچوں جیسی سستی ترین چیزیں بھی ملاوٹ سے پاک نہیں ہیں۔ باہر کے ممالک جن کے رہنے والوں کو ہم کافر کہتے ہیں وہاں کسی بھی چیز میں ملاوٹ کو بدترین فعل سمجھا جاتا ہے۔ ہر چیز کی پیکنگ کے اوپر اجزا لکھے ہوتے ہیں اور یہی تمام اجزا اس چیز میں موجود بھی ہوتے ہیں ذرا سے بھی ہیر پھیر کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ خالص صاف ستھرا دودھ بوتلوں میں میسر ہوتا ہے۔ وہ دودھ جسے ہم لوگ پاکستان میں اللہ کا نور کہتے ہیں لیکن اللہ کا یہ نور اب خالص حالت میں صرف کافر ملکوں میں میسر ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ کا یہ نور خالص حالت میں ملنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

ایک وقت تھا دودھ میں ملاوٹ صرف پانی کی ہوتی تھی اور دودھ صرف پتلا ہونے کی شکایت کی جاتی تھی جس کا توڑ گوالوں نے یہ نکال لیا کہ تالاب کا پانی دودھ میں شامل کرتے تھے جس سے دودھ پتلا نہیں ہوتا تھا۔ میرا حسن ظن آج بھی یہی ہے کہ گوالے دودھ میں صاف پانی ہی ملاتے ہوں گے اور مجھے دودھ میں گندہ پانی ملانے والی بات میں صداقت نظر نہیں آتی لیکن کہنے والے ایسا ہی کہتے ہیں کہ دودھ میں جوہڑ یا تالاب کا پانی ملایا جاتا تھا۔ وہ اچھے زمانے تھے جب دودھ میں گندے یا صاف پانی کی ملاوٹ کی جاتی تھی اور کچھ نہ کچھ دودھ بہرحال دودھ کے نام پر ملنے والی شے میں ضرور شامل ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور دودھ کی کھپت بڑھنے کے ساتھ پیسے کی ہوس بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب ملاوٹ شدہ دودھ کے بجائے مکمل طور پرکیمیکل شدہ مشینی دودھ بیچا جا رہا ہے۔

لاہور میں ہمارے گھر کے پاس ایک دودھ فروش کی دوکان ہے جو چند سال پہلے ہی کھلی تھی۔ پورے دن میں اس کے پاس دودھ کی ایک گاڑی صبح کے وقت آتی ہے اور ایک شام کے وقت جس میں دودھ ہوتا ہے۔ یہ دودھ اس کی پورے دن کی سیل کی شائد پانچ فیصد ضرورت پوری کرتا ہو۔ باقی سارا دودھ وہ کیمیکل سے خود تیار کرتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس دودھ فروش نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آج وہ شخص کروڑوں میں کھیل رہا ہے اور آس پاس علاقے میں جو بھی جائیداد برائے فروخت ہو وہ شخص خرید لیتا ہے۔ گیارہویں کا ختم ہو یا داتا گنج بخش کا عرس ہو یا کوئی بھی مذہبی موقع ہو یہ دودھ فروش دودھ کی سبیل بھی لگاتا ہے۔ اس طرح شائد وہ اپنی اس حرام کی کمائی میں سے کچھ حصہ اللہ کے نام پر نکال کر باقی کمائی کو حلال تصور کر لیتا ہے۔ پورے علاقے کو معلوم ہے کہ یہ دودھ فروش دودھ کیسے تیار کر رہا ہے اور کیمیکل ملا دودھ فروخت کر رہا ہے لیکن کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ ایک دو دفعہ اس کی دوکان پر چھاپہ بھی پڑا ہے لیکن ایک دو دن دوکان سیل ہونے کے بعد دوکان دوبارہ کھل گئی۔ نہ اس کے کان پر کوئی جوں رینگی نہ اس کے گاہکوں کے کان پر کیونکہ اس کے گاہک سب کچھ جانتے بوجھتے ویسے ہی پہلے کی طرح ٹوکن لے کر اور لائن میں لگ کر کیمیکل ملا دودھ خرید رہے ہوتے ہیں۔

یہ صرف ایک دودھ فروش کا قصہ نہیں بلکہ یہ ہر گلی ہر سڑک پر موجود دودھ فروخت کرنے والی دوکانوں کی کہانی ہے۔ یہ لوگ پیسے لے کر لوگوں میں دودھ کی بجائے زہر بیچ رہے ہیں۔ یہ سوچ کر بھی جھرجھری آتی ہے کہ جو بچے یہ دودھ پی کر بڑے ہو رہے ہیں ان کی صحت کا کیا حال ہو گا۔ یقیننا فوڈ کوالٹی کنٹرول اور فوڈ سیکیورٹی کے ادارے موجود ہیں اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ساری صورتحال ان اداروں کے علم میں نہیں۔ یقیننا ملاوٹ کے بارے قانون سازی بھی موجود ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی قانون شکنی اور دیدہ دلیری سے کی جانے والی ملاوٹ پر قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش کیوں ہیں؟

ہمارا معاشرہ چونکہ بحیثیت مجموعی انحطاط کا شکار ہے اس لئے بڑی سے بڑی برائی بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام سی چیز بن چکی ہے۔ ملاوٹ جیسی خطرناک برائی کو تو شائد اب برائی سمجھا بھی نہیں جاتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی چیزخالص ملنے کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ جس ملک میں گدھے اور کتے کا گوشت لوگوں کو بکرے کا گوشت کہہ کر کھلا دیا گیا ہو، جہاں گوشت کی قیمت بڑھ جائے لیکن بریانی کی قیمت وہی رہے اور بریانی میں موجود بوٹی کے سائز میں بھی کمی نہ ہو اور لوگ بغیر سوچے سمجھے وہ بریانی شوق سے کھا رہے ہوں تو کس کو ضرورت پڑی ہے کہ تحقیق کرتا پھرے کہ بریانی میں استعمال والے ہونے والی مرغی ذبح کی گئی تھی یا مردہ مرغی استعمال کی گئی، قورمے میں موجود گوشت بکرے کا ہے یا گدھے کا۔ اچھے وقتوں میں یہ بات کی جاتی تو کوئی یقین بھی نہ کرتا لیکن اب تو یہ سارے حقائق ثابت شدہ ہیں اور کوئی ان حقائق کو جھٹلا نہیں سکتا لیکن کہنے کو ہم واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں۔

ویسے تو خیر سے ارض پاک میں کوئی بھی خالص شے میسر نہیں ہے لیکن بطور خاص اس تحریر کا مقصد غیر معیاری دودھ کی فروخت کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے تاکہ دودھ کے نام پر گلی گلی زہر بیچنے والے ان دودھ کے اڈوں کا احتساب ہو سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے فوڈ سیکیورٹی کے اداروں کو نہ صرف متحرک کیا جائے بلکہ ان اداروں کی تطہیر بھی کی جائے تاکہ ان اداروں میں رشوت کا خاتمہ ہو سکے اور یہ ادارے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کر سکیں۔ ہمارے سرکاری اداروں میں رشوت کا بازار اس قدر گرم ہے کہ کوئی بھی جرم کرنے والے بڑی آسانی سے سرکاری اہلکاروں کی مٹھی گرم کر کے اپنے غلیظ دھندے جاری رکھتے ہیں لیکن فوڈ سیکیورٹی ایک ایسا اہم معاملہ ہے جس سے پہلوتہی کرنا اور عوام کی صحت سے کھیلنا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔

یہ صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس اہم ترین مسئلے کی جانب فوری توجہ دی جائے۔ فوڈ سیکیورٹی کےاداروں کو رشوت سے پاک کیا جائے، غیر معیاری دودھ کی ٹیسٹنگ کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔ غیر معیاری کیمیکل ملا دودھ فروخت کرنے والی دوکانوں پر چھاپے مارے جائیں اور کیمیکل ملا دودھ فروخت کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں اور ان کی دوکانوں کو مستقل طور پر بند کروایا جائے۔ کیمیکل ملے دودھ کی فروخت کو ختم کرنے کے لئے مستقل بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ نہ صرف عوام کی صحت سے کھیلنے والے دودھ فروش مافیا کا خاتمہ کیا جا سکے بلکہ قوم کے بچوں کو تھوڑا سہی لیکن خالص اور معیاری دودھ میسر ہو سکے۔

۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: