مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علمی وراثت کے خزانے…||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیرانی کی بات نہیں کہ جن قوموں نے صنعتی ترقی میں عروج حاصل کیا‘ وہاں تعلیم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند صدیاں پہلے مغرب نے سرکاری سرپرستی میں یکساں اور معیاری تعلیم کو اپنے ریاستی مقاصد میں سب سے مقدم رکھا۔ برطانیہ اور امریکہ میں ابتدائی سکولوں سے لے کر جامعات تک کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہر ادارہ اپنے ماضی اور زندہ روایات پر بجا طور پر فخر کرتا ہے۔ مجھے مغرب کے کتب خانوں نے بہت متاثر کیا ہے۔ جب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چار عشرے قبل طالب علم تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں لائبریری میں تین ماہ کی نوکری مل جاتی تھی۔ لاکھوں کتابوں اور سرکاری دستاویزات کے اس عظیم علمی خزانے میں میرا کام گم شدہ کتابوں کو تلاش کرنا ہوتا تھا۔ اگر کوئی کتاب اپنے نمبر کی جگہ پر نہ ہوتی تو اسے تلاش کرکے اس کی جگہ پر دوبارہ رکھنا ہوتا تھا۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک سیکشن کی کتاب کسی دوسرے سیکشن میں ملتی۔ میں نے پہلے ہی سال اتنی مہارت حاصل کرلی کہ کھوجی بن گیا تھا۔ لائبریری کو اگر کوئی کتاب جلد تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو اس درویش کی خدمات طلب کی جاتیں۔ تیسرے سال میں انفارمیشن ڈیسک پر ہر آنے والے کی رہنمائی کرتا رہا۔ اس دوران اپنے ملک‘ تاریخ اور ثقافت کے بارے میں ایسی کتابیں بھی دیکھیں جن کے بارے میں کبھی سنا تک نہ تھا۔ پنجابی انگریزی لغت‘ جو انیسویں صدی کے آخرمیں شائع ہوئی تھی‘ وہیں دیکھی۔ یہ اصل میں آج کے لسانی نام کے اعتبار سے سرائیکی انگریزی لغت ہے جس کی میں دو کاپیاں بنا کر لایا تھا۔ ایک لوک روثہ اسلام آباد کو دی اور دوسری کسی دوست کو مستعار‘ جو اب ہمیشہ کے لیے گم ہو چکی ہے۔
اس مضمون کا مقصد علمی ثقافت اور اس کے ورثے کو کتب خانوں کی صورت محفوظ کرنے اور عام لوگوں کی ان تک رسائی آسان بنانے کی مغربی روایت کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ اس سے پہلے جس لائبریری نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا‘ وہ برٹش لائبریری لندن ہے۔ اگر آپ کا کبھی لندن جانے کا اتفاق ہو‘ کچھ وقت وہاں ضرور گزاریں۔ اس کی دنیا ہی الگ ہے۔ لائبریری کا جو روایتی تصور ذہن میں ابھرتا ہے‘ یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑا تاریخی ادارہ اور علمی ورثہ ہے۔ یہاں ہماری کشش کی وجہ پرانی ”انڈیا آفس لائبریری‘‘ کے سرکاری کاغذات اور دستاویزات ہیں جو اب ”افریقہ اور ایشیا‘‘ مجموعے کا حصہ ہیں۔ جو بھی سرکاری فائل برطانوی حکومت اپنے راج کے دوران بناتی تھی‘ اس کی ایک کاپی انڈیا آفس پہنچائی جاتی تھی۔ ہماری دلچسپی کا موضوع گزشتہ کئی برسوں سے ریاست بہاولپور‘ سرحدی علاقے اور بلوچستان رہے ہیں۔ اب وقت ملے تو کچھ لکھیں۔ میں وہاں صبح سویرے چلا جاتا ہوں ۔ آدھا گھنٹہ پہلے پہنچیں تو اندر جانے والوں کی تقریباً ایک دو فرلانگ لمبی لائن لگ چکی ہوتی ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے محققین یہاں اپنی تصانیف کے لیے آئے ہوتے ہیں۔ یہاں سے مواد اکٹھا کرتے ہیں۔ سامنے کافی کھلی جگہ ہے جہاں کیفے بھی ہے ۔ آپ دورانِ انتظار وہاں سے چائے یا کافی نوش کر سکتے ہیں۔ اندر بھی ایک کیفے موجود ہے۔ لوگ کام سے اکتا کر ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ممبرشپ حاصل کرنا ہوتی ہے جو چند منٹوں کا کام ہے۔ اس کام پر مامور خواتین آپ کا نام اور پتا معلوم کرتی ہیں اور شناخت کے لیے پاسپورٹ دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلے تین سال کے لیے آپ کو کارڈ مل جاتا ہے جس کے ذریعے آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر اس لائبریری سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
دستاویزات تلاش کرنے کے لیے اس کا طریقہ کار سیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ وہاں مدد کے لیے معاونین موجود ہوتے ہیں۔ آپ بیک وقت پانچ فائلوں کی درخواست کر سکتے ہیں جو تقریباً ایک گھنٹے کے اندر آپ کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ دستاویزات ہیں جن کی آپ تصویریں لے سکتے ہیں‘ دوسری وہ ہیں جو آپ صر ف پڑھ کر نوٹ بنا سکتے ہیں۔ دونوں کے بیٹھنے کی جگہیں علیحدہ ہیں۔ یہاں بھی میرے طالب علمی کے زمانے کی لائبریری کی طرح کتابیں اور دستاویزات غلط جگہ پر رکھ دی جاتی ہیں۔ کئی سالوں سے میں یہاں درخواست کر رہا ہوں کہ مجھے 1941ء کی بلوچستان کی مردم شماری کی کاپی چاہیے۔ بہت تگ ودو کے بعد بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں۔ حکومتِ بلوچستان نے یہ دوبارہ شائع کی ہوئی ہے مگر مجھے اس کی صحت پر اعتبار نہیں۔ یہاں نہیں تو کہیں اور‘ اصل کاپی کبھی نہ کبھی تو مل جائے گی۔ سندھ‘ پنجاب اور پرانے فرنٹیئر کی تب کی مردم شماری کی رپورٹیں میرے پاس موجود ہیں جو اس لائبریری سے ہی کاپی کی ہوئی ہیں۔ ہمارے لیے اس نوع کی دستاویزات جو ہمیں اپنی تحقیق او ر تالیف کے لیے مقصود ہوں‘ مل جائیں تو ایسے لگتا ہے گویا ہمیں خزانے مل گئے ہیں۔ تاریخی حوالہ نہ ہو‘ ثبوت موجود نہ ہو تو جو بھی لکھا جائے وہ کسی رائے اور کہانی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ان صفحات پر ہم جو بھی لکھتے ہیں‘ وہ ایک طرح کی رائے یا تجزیہ ہے جس سے آپ ہمیشہ کی طرح اختلاف کر سکتے ہیں لیکن تحقیقی مقالہ ہو یا کوئی ایسی کتاب‘ تو بات کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مفروضے اور من گھڑت قصے کام نہیں دیتے۔
ہم جامعہ پنجاب میں پڑھتے تھے۔ تب لاہور کے کتب خانے ہمیشہ کی طرح کشش رکھتے تھے۔ ہر شعبے کی اپنی لائبریری اور پھر جامعہ کی ایک مرکزی لائبریری ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب پبلک لائبریری اور دیال سنگھ کالج کی لائبریری مجھے بے حد پسند تھیں۔ عجیب بات ہے کہ ایم اے کے فوراً بعد‘ نتیجہ آنے کے چند دنوں کے اندر‘ سنٹر فار ساؤتھ ایشیا میں بطور قومی رضاکار ریسرچر کی نوکری ملی تو مجھے محترم رضا عالم صاحب کے گھر ذاتی لائبریری میں موجودہ جنوبی ایشیا پر کتابوں کی فہرست اور کارڈ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ باقی سب ٹھیک تھا مگر دروازے پر بیٹھے ہوئے کتے کا ڈر آج تک دل میں بیٹھا ہوا ہے۔
برطانیہ اور امریکہ میں کتب بینی کا کلچر بہت گہرا اور وسیع ہے۔ لوگ اپنے منفرد ذوق کے مطابق کتابیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں اور ان کی اپنی ذاتی لائبریری بنتی رہتی ہے۔ ہر مقامی کونسل نے اعلیٰ درجے کی کئی ایک پبلک لائبریریاں بنا رکھی ہیں جو ایک لحاظ سے کمیونٹی سنٹر کا درجہ رکھتی ہیں ۔ لندن کے مضافات میں ایک ایسی ہی لائبریری میں دن کا حصہ گزارا تو وہاں کئی پروگرام دیکھے۔ چھوٹے بچوں اور مائوں کے لیے علیحدہ جگہ ہے جہاں وہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایک کیفے ٹیریا بھی اندر ہی موجود ہے۔ ان میں مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مصنفین کو اپنی کتاب پر لب کشائی کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ روز مرہ کے مسائل پر بات کرنے کے لیے ماہرین بھی آتے ہیں۔ مقامی لوگوں اور لائبریری کا ر شتہ اتنا ہی قریبی ہے جسے مذہبی لوگوں کا عبادت گاہوں سے۔ یہاں گھر میں بچوں کو سنبھالنے والی خواتین بھی ہفتے میں کچھ دن نکال کر لائبریری کا چکر ضرور لگاتی ہیں۔ کتاب نہیں تو اپنی پسند کی فلم ہی دیکھ لی‘ کسی کورس میں داخلہ لے لیا اور یوں اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے ملنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے اور دنیا کیسے آگے نکل گئی؟ مسئلہ سادہ سا ہے۔ جنہوں نے بچوں کے ہاتھ میں کتاب اور قلم دے دیا‘ وہ آگے نکل گئے۔ کاش جو لوگ خود کو مسلمان کہتے اور جتاتے ہیں‘ وہ پہلی وحی کے ان چند الفاظ پر ہی عمل کرتے جو علم کی تاکید کرتے ہیں ۔ سوچیں‘ ہمارے لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہاں بچوں کے سکول نہ جانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن پھر عملی خزانوں کو محفوظ رکھنے کی روایت! کیا آپ بغداد کو بھول گئے؟ ہمارا بھی کبھی ایسا ہی ورثہ تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: