اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں.
ہمارے گاوں کی زندگی میں ہماری مائیں غریب تو تھیں ساتھ عجیب بھی تھیں۔ اکثر عورتیں اپنا سونے کا زیور سنبھال کر رکھتیں اور پھر یا تو وہ ان کی بیٹیوں یا بیٹوں کی شادی پر اگلی نسل کو منتقل ہوتا یا پھر ان کی تعلیم پر قربان ہو جاتا۔گاوں کی عورتیں زیور صرف شادیوں کے موقع پر پہنتی اور زیور سے عورتیں پیار بھی بہت کرتیں۔ اگرچہ گاوں کی ایک ھزار کی آبادی میں ہمارے خونی رشتے کم تھے مگر سارے گاوں کی عورتیں میری ماسیاں تھیں۔ آجکل ماسی گھر میں کام کرنے والی کو کہتے ہیں پہلے اس کا مطلب صرف خالہ تھا۔ گاوں میں نوکرانیوں کا تو رواج بھی نہیں تھا۔ میں سکول جانے کے بعد ابھی اس قابل بمشکل ہوا کہ 100 تک گنتی کر سکتا تھا اور دو کا پہاڑہ یاد تھا کہ ایک روز گاوں کی ایک ماسی میری ماں کے پاس آئی جس کو کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوئ کورس وغیرہ کرنے لاہور یا پشاور جانا پڑتا تھا۔اس وجہ سے ماں کے زیور بیٹوں کی تعلیم پر قربان ہو جاتے۔اس ماسی کا بیٹا بھی کوئی کورس کرنے باہر جا رہا تھا زیور بیچ کر بھی رقم کم پڑ گئی تھی۔میری ماں نے مجھ سے کہا کہ میں کمرے کے اندر سے گڈوی اٹھا کے لاوں۔ یہ گڈوی کانچ کی بنی ہوئی تھی جس میں میری ماں کلدار روپے کا خزانہ رکھتی تھی۔ جب گڈوی لے آیا تو ماں نے سکے الٹ دیے اور مجھے کہا میں ان روپوں کو گن لوں۔ وہ ٹوٹل 84روپے تھے۔ میں نے جب بتایا تو ماسی کہنے لگی تو مجھے انگریزی میں مت بتا بلکہ یہ بتا کہ کتنے بیس ہیں۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ ہمارے گاوں کے لوگ بڑی رقم بیس کے حساب سے گنتے تھے۔سرائیکی میں کہتے۔۔پنج وِیاں دا سو۔۔۔ خیر میں نے ماسی کو بتایا ۔۔چار اُتے چار ویاں۔اس نے چار روپے واپس کر دیے اور چار ویاں یعنی 80 روپے لے کر چلی گئی۔ کئ دن بعد میری ماں مجھے ساتھ لے کر اس ماسی کے گھر گئی ۔میری ماں اس کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول ہو گئی اور میں اپنی ایک چھوٹی ربڑ بال سے صحن میں کھیلنے لگا۔ جب ماں واپس جانے لگی اور ماسی سے ملی تو دونوں عورتوں کے آنکھوں میں آنسو تھے۔ جب باہر گلی میں آے تو میں نے ماں سے پوچھا آپ لوگ کیوں روے تو اس نے بتایا پہلے اس کا زیور بکا پھر ہم سے 80 روپے ادھار لیے پھر بھی رقم پوری نہ ہوئی تو بکری اور مرغیاں بیچنی پڑیں۔ میں ایک کھلنڈرا بچہ تھا ماں سے کہاں اگر بکری اور مرغیاں بکیں تو رونے کی کیا بات ھے؟اب تو میری ماں غصے میں آ گئی اور رک کر مجھے کہا تم دیکھتے نہیں ۔۔اوناں دا ویہڑہ سنجا تھی گیے۔۔ مطلب ماسی کا آنگن ویران ہو گیا یہاں بکری اور مرغیاں ہوتی تھیں۔ میں نے ماں کی بات بالکل ایک بے حس انسان کی طرح سنی اور چلنے لگا۔
مجھے جب اللہ نے پوری دنیا دکھائی ۔بے زری کے وقت سے زرخیزی دکھائی۔تعلیم کے اعلی مقام تک پہنچایا۔ میری ماں اور وہ ماسیاں دنیا سے رخصت ہوگئیں تو پھر اب میری سمجھ میں میری ماں کی بات آئی اور جب وہ بات یاد آتی ھے تو اب میں بھی رونے لگتا ہوں !!!
یہی وہ یادیں ہیں جو مجھے اسلم کولسری کا یہ شعر لکھنے پر مجبور کرتی ہیں؎
شھر میں آ کے پڑھنے والے بھول گئیے۔۔۔
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا !!
آج ڈیرہ شھر کے کتنے ڈاکٹرز ۔انجینئرز۔بیوروکریٹ۔افسر اس بات کو یاد کرتے ہونگے کہ ان کے ماں باپ نے کتنا مشکل وقت کاٹ کر ان کی تعلیم کا بندوبست کیا تھا۔؎
آئیےہاتھ اٹھائیں ہم بھی.
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں.

%d bloggers like this: