مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

منت ترلہ، دھمکیاں، سائنس اور فراریاں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق سینیٹر اعظم سواتی نے انکشاف کیا ہے کہ گرفتاری کے دوران ان پر نامناسب تشدد ہوا اور پھر تشدد کرنے والوں نے ’’تشدد کے نشانات مٹادیئے‘‘۔
ویسے سائنس اتنی ترقی کرگئی ہے یہ تو بہت اچھی خبر ہے البتہ یہ درست بات ہے کہ کسی گرفتار شخص پر تشدد خلاف قانون ہے۔ پولیس اور دوسرے کسی محکمے کے اہلکاروں کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی تحویل میں موجود شخص یا افراد پر تشدد کریں۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اعظم سواتی کا طبی معائنہ کروائے۔
سائنس بہرحال اتنی ترقی تو کرچکی ہے کہ اگر کوئی تشدد کے ظاہری نشان مٹادینے پر دسترس رکھتا ہے تو کوئی سائنس دان آثار و باقیات تلاش کر ہی سکتا ہے۔ ایسا کیا جانا اس لئے ضروری ہے کہ سینیٹر اعظم سواتی کی دادرسی ہونی چاہیے۔
موجودہ صورتحال میں انہیں وہ دن اخلاقی طور پر یاد کرانے کی ضرورت بالکل نہیں جب ان کے دبدبے کو ثابت کرنے کے لئے اتوار والے دن اسلام آباد کے آئی جی کو تبدیل کردیا گیا تھا۔ اب وہ اپنے ساتھ زیادتی اور تشدد کا الزام لگارہے ہیں ان کی تسلی و تشفی کے لئے اقدامات ضروری ہیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ بزرگ آدمی ہیں اور بزرگوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
ادھر خان صاحب (عمران خان) کا حقیقی آزادی لانگ مارچ جہاد نے چوتھے دن کی شام گوجرانوالہ میں پڑائو ڈالا۔ منگل کو لانگ مارچ گوجرانوالہ سے آگے بڑھے گا۔ جس رفتار سے لانگ مارچ رواں دواں ہے یہ کتنے دنوں میں اسلام آباد کے "سومنات” پہنچ پائے گا؟
خان صاحب نے 10نومبر کی تاریخ دی ہے۔
ہمارے محبوب کامریڈ چنگچی گویڑا قبلہ میاں نوازشریف نے سوشل میڈیا کی سائٹ ٹیوٹر پر اپنے اکائونٹ میں دعویٰ کیا کہ عمران خان کے لانگ مارچ میں مشکل سے 2ہزار بندے ہیں۔
میاں صاحب کی ٹیوٹ دیکھاتے ہوئے فقیر راحموں نے دریافت کیا ’’شاہ جی یہ دو ہزار بندے کچھ زیادہ نہیں بتادیئے انہوں نے؟‘‘ ہم چونکہ فقیر راحموں کی فتنہ پروریوں سے واقف ہیں اس لئے جواب دینے کی بجائے اس کی طرف ایک کتاب بڑھاتے ہوئے کہا آپ یہ پڑھیں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔
منہ پھلائے لیکن کتاب دبوچے سامنے صوفے پر نیم دراز ہیں حضرت۔ گاہے گاہے سگریٹ سلگاتے اور دھواں اڑاتے ہوئے اوراق الٹ رہے ہیں دیکھتے ہیں کتاب پڑھ کر کیا ستم ڈھاتے ہیں۔
کامریڈ گویڑا حاجی نوازشریف نے اپنی ٹیوٹ میں عمران خان کو ’’فتنہ‘‘ کہا۔ خان بھی تو روزانہ کی بنیاد پر انہیں بھگوڑا اور نجانے کیا کیا کہتا ہے۔
ارے ہاں یاد آیا ہے خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ’’مجھے اسٹیبلشمنٹ (ملٹری اسٹیبلشمنٹ) نے بتایا تھا کہ زرداری اور نوازشریف چور ہیں‘‘۔
ہم تو روز اول سے یہی کہہ رہے تھے کہ خان اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان بن کر اس گند کو بڑھارہا ہے جس کاکچھ حصہ آنے والوں برسوں میں اسے بھی ملے گا۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ کی خان کو فراہم کردہ معلومات ایمان کا ساتواں رکن ہیں تو خان بارے جو معلومات فراہم کی جارہی ہیں انہیں آٹھواں رکن بنانا ہے یا پروپیگنڈہ قرار دینا ہے؟
گوجرانوالہ میں گزشتہ روز خان نے دو انقلابوں کی بات کی۔ وہ کہتے ہیں بیلٹ باکس سے نرم انقلاب آتا ہے اور خونریزی کے ذریعے تباہ کن۔ مارشل لاء لگانا ہے تو لگائیں مجھے کیا ڈرارہے ہیں۔ سوموار کو ہی یہ بھی کہا ’’اللہ کا واسطہ ہے قوم کی آواز سن لو‘‘۔ قوم سے مراد یقیناً ان کے لاڈے پیارے انصافی ہی ہوں گے کیونکہ فقیر راحموں اور خود ہم اس کے ساتھ بالکل بھی نہیں ۔
کھیل دلچسپ مرحلے میں ہے منتیں ترلے اور دھمکیاں ساتھ ساتھ ایک ٹکٹ میں 2مزے۔ کسی زمانے میں قصبوں اور چھوٹے شہروں کے سینمائوں میں ایک شو میں 2فلمیں دیکھائی جاتی تھیں ہم نے بھی وہ شو دیکھے یقیناً خان صاحب نے بھی دیکھے ہوں گے آخر آٹھ دس سال وہ ہم سے بڑے ہیں۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کے خلاف 10ارب روپے ہرجانہ کا کیس پھڑکانے کا اعلان کیا ہے کہتے ہیں چیف الیکشن کمشن نے توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ والے فیصلے دے کر میری ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
عجیب بات ہے ایک ” لوکل ” چیف الیکشن کمشنر پر اتنا غصہ لیکن وہ جو جولائی میں ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے ان کی کرپشن رام لیلا پر پورا صفحہ شائع کیا تھا اس کے خلاف ابھی تک لندن میں کیس تو کیا کرنا تھا وضاحتی نوٹس بھی نہیں بھجوایا۔
سیانے سچ کہتے ہیں کمزور آدمی پر چڑھائی کردو اور طاقتور کو دیکھ کر گلی بدل لو۔ خیر کچھ اور باتیں کرتے ہیں ایک اکیلا خان ہی تو نہیں اس دنیا میں اس سے بھی بڑے بڑے لوگ ہیں۔
سوموار کو وزیراعظم نے 1800 ارب روپے کے کسان پیکیج کا اعلان کیا ان (وزیراعظم) کی پریس کانفرنس ختم ہوئی تو ایک صحافی نے فضائلِ کسان پیکیج بیان کرتے ہوئے وہ وہ باتیں سوال میں ’’پرو‘‘ کر پیش کیں کہ بعد از پریس کانفرنس میاں شہباز شریف نے اپنے برادر بزرگ کامریڈ میاں نوازشریف سے ٹیلیفون پر پوچھا "پھا جی یہ خالد حنیف صحیح کہہ رہا تھا کہ چونا لگارہا تھا؟ "
راوی کہتا ہے کہ جواباً کامریڈ نے تاریخی جملہ لندن سے پاکستان بذریعہ ٹیلیفون روانہ کیا۔ کامریڈ نے کہا ’’شہباز جے توں لندن نی آنا تے فیر بچ موڑ توں‘‘۔
اہل اقتدار اور کسی محکمے کے سربراہ کی پریس کانفرنس کے بعد چاپلوسی کرنے والے جن خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اس پر ہم جیسے قلم مزدوروں کو شرمندگی ہوتی ہے لیکن انہیں ککھ فرق نہیں پڑتا سمجھ تو گئے ہوں گے ۔
ویسے شہباز شریف کو چاہیے کہ موصوف کا پتلا بنواکر پی آئی ڈی کے مرکزی گیٹ پر لگوادیں ۔ پتلے پر یاد آیا وہ صرف ان حضرت کا ہی کیوں اس کے اور بھی حقدار ہیں مثلاً وہ اپنے صالح ظافر شیخوپوری، ان جیسے بزرگوں کی وجہ سے ہی تو لوگ عام قلم مزدوروں کو صلواتیں سناتے ہیں۔
اللہ ہی انہیں ہدایت دے لیکن بیگم کا تبادلہ یا اگلے گریڈ میں ترقی یا پھر مدت ملازمت میں توسیع کے لئے چونکہ وزیراعظم کا حکم حرف آخر ہوتا ہے اس لئے ’’مالش مالش‘‘ تڑکہ بہت ضروری ہے۔
لیجے عمران خان کے حقیقی آزادی لانگ مارچ جہاد کے ایک سچے ترجمان اور ہاشوانی کے سابق بالک ارشاد بھٹی بچوں سمیت ناروے جابسے ہیں ( ناروے چلے جانے کی خبر اس میڈیا ہاوس کے اخبار نے شائع کی جس سے وہ منسلک ہیں ) ۔ پچھلے چار سالوں کے دوران وہ عمران خان کی دیانت، صداقت، بندہ پروری، جدوجہد اور دیگر دیگر کی کہانیاں سناتے ان کے مخالفین کے کالموں اور تجزیوں میں لتے لیتے رہے۔
انہیں خان صاحب کا ذاتی دوست سمجھا جاتا تھا۔ بھٹی صاحب عمران خان کی اپوزیشن پر الزام لگایا کرتے تھے کہ وہ (اپوزیشن) ان کے بچوں کا دودھ پی گئی ہے۔
ملک چھوڑ کر اچانک ناروے جابسے۔ ظاہر ہے یہ انتظام اچانک تو نہیں ہوا ہوگا بہرحال انہوں نے بھی ٹیوٹر پر لکھا
’’میں اپنے بچوں کے ہمراہ ناروے منتقل ہوگیا ہوں اور پاکستانی صحافیوں کے لئے دعاگو ہوں‘‘۔
کچھ تو خدا کا خوف کرو بھٹی صاحب، خود ناروے میں جابسے ہو اور بھیج دعائیں رہے ہو۔ ویزے بھیجو یا وہ نسخہ کیمیا جو ناروے کی شہریت دلوادے دعائوں کا کیا کرنا ہے یہ تو 10روپے فقیر کو دیں تو وہ بھی کہہ دیتا ہے جا صوفی اللہ تینوں حج کرائے۔
ویسے مذاق سے ہٹ کر مجھے ارشاد بھٹی کے بیرون ملک چلے جانے سے صدمہ ہوا۔ وہ ہمیشہ فخر سے کہا کرتے تھے میں بھٹی راجپوت ہوں دلا بھٹی شہید کا وارث (یعنی ان کے قبیلے کا) پتہ نہیں انہوں نے دلا بھٹی شہید کا نام ہی سن رکھا تھا کہ ان کے بارے میں کچھ پڑھا بھی تھا۔ دلا بھٹی مرد میدان ثابت ہوئے تھے دشمنوں سے لڑے اپنے خون کا غسل لیا۔
ادھر یہ وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے بچوں سمیت اڑنچھو ہوئے اور ناروے جابسے۔
ماسٹر ایاز قوال کی ایک قوالی چالیس پینتالیس برس قبل سنی تھی ایک مصرعہ یاد ہے
’’جدھر دیکھو عشق کے بیمار بیٹھے ہیں، سینکڑوں مر گئے ہزاروں تیار بیٹھے ہیں‘‘۔ اب جس طرح تبدیلی کی ترجمانی کرنے والے ملک سے نکل رہے ہیں اس پر حیرانی ہے۔
کل شام فقیر راحموں نے انکشاف کیا کہ وہ عنقریب پاسپورٹ بنوارہا ہے۔ پوچھا کیا ضرورت پڑگئی؟ جواب ملا اگر انقلاب بیلٹ باکس کے ذریعے آیا تو پھر دوستوں کی منت ترلہ کرکے دوچار ملک گھوم پھر آئیں گے لیکن اگر خونی انقلاب آیا تو پتلی گلی سے نکلنے کا سامان ہونا ضروری ہے۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا فقیر جی چلیں آپ اس ملک سے نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو جائیں گے کہاں؟
حکم کریں کسی کو کہہ سن کر آپ کو کینیا یا سوڈان بھجوادیتے ہیں۔ غصے سے بولے تم سے یہی امید تھی۔
امریکہ کینیڈا وغیرہ کا نام بھی تو لے سکتے تھے۔
عرض کیا یار اگر میری امریکہ کینیڈا تک رسائی ہوتی تو خود یہاں بیٹھا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: