اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا ڈیرہ اسماعیل خان میں خالص دودھ ملتا ہے ؟۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ڈیرہ اسماعیل خان میں خالص دودھ ملتا ہے ؟
آج سے 122 سال پہلے 1901ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلمان کبھی بھی دودھ فروخت نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کا خیال تھا دودھ نور ہے اور اس کا بیچنا گناہ ہے۔مسلمان ایک دوسرے کو دودھ مکھن بوقت ضرورت مفت دیتے تھے۔لسی تو ہر گھر مفت دی جاتی تھی۔مسلم بازار میں ہندوٶں کا ڈیری فارم تھا اور وہ دو آنے سیر دودھ بیچتے۔دیسی گھی بیس سے پچیس روپے من فروخت ہوتا۔
آج 122 سال بعد ڈیرہ میں خالص دودھ ملنا محال ہے۔ کیمیکل سے بنا خطرناک دودھ روز ٹینکروں میں پنجاب سے لایا جاتا ہے اور وہ مسلمان جو اس کو نور سمجھتے تھے ان کے بچے آج ہمیں زہریلا دودھ فروخت کرنے میں شرم تک محسوس نہیں کرتے ۔۔ہم کہاں سے چلے تھے کہاں آ پہنچے۔۔

درختوں اور پرندوں سے محبت کا حیران کن واقعہ ۔۔

آج شام میری کینیڈا میں اپنے بیٹے سے بات ہو رہی تھی جو وہاں سرکاری محکمے میں انجینیر ہے اور آج کل سڑکیں بنا رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ کینیڈا میں قانونی طور پر نہ آپ درخت کاٹ سکتے ہیں اور نہ کسی پرندے یا جانور کو کچھ کہ سکتے ہیں۔ سڑک بنانے کے دوران ایک درخت کی شاخ فٹ پاتھ کے اوپر آ رہی تھی تو میں نے محکمہ جنگلات کو اس کی شاخ کاٹنے کی اجازت کے لیے لکھ دیا۔ چند دن میں اجازت تو آ گئی لیکن اس دوران رابن Robin پرندے نے اس شاخ پر گھونسلہ بنا دیا۔ جنگلات والے شاخ کاٹنے پہنچے تو گھونسلہ دیکھا اور فورن اجازت منسوخ کر دی کہ اب یہ شاخ کبھی نہیں کٹے گی۔ میں نے ان سے بات کی کہ یہ عوام کے چلنے میں رکاوٹ ہے تو انہوں نے کہا پرندے میں شعور نہیں اس لیے اس نے گھونسلہ بنایا ہے انسان میں شعور ہے اس لیے وہ دیکھ کر اس جگہ سے احتیاط سے گزر جائینگے یہ کہ کر وہ چلے گئے۔ میرے بیٹے نے درخت اور گھونسلے کی تصاویر مجھے اس لیے بھیج دیں کہ ہم لوگ سوچیں ہم درختوں اور پرندوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں ۔کچھ تو ترس کھائیں اور درختوں اور پرندوں کی بقا کے لیے کوشش کریں ۔

اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی ۔۔

پروین شاکر کی یہ غزل ڈیرہ کی ایک سبزی فروٹ پر صادق آتی ہے ۔ماضی کے ڈیرہ اسماعیل خان میں اسی ہاڑ کے موسم میں خربوزوں کے علاوہ چھوٹے سائز کے مَشرو جو خربوزے کی نسل کے تھے اور انڈے سے ذرہ بڑے ہوتے مارکیٹ میں آتے جن کی خوشبو پیرس کے پرفیوم سے سو گنا زیادہ ہوتی۔ یہ خربوزے کی واڑی میں اگتے مگر اب ناپید ہو چکے ہیں۔یہ ریپھڑ یا مشرو اگر کمرے میں رکھ دیتے تو کمرا خوشبو سے مہک اٹھتا۔ہاتھوں میں لینے سے خوشبو کے جھونکے آتے۔ میں سوچتا ہوں ہم ترقی کرتے کرتے ڈیرہ کے خزانوں کو لٹوا بیٹھے۔ ہو سکتا ہے کہیں پہ وہ اب بھی موجود ہوں۔

کلاچی کے خربوزے کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ایک رودکوہی زراعت کے ماہر دوست جناب کریم نواز بلوچ جو آج کل آسٹریلیا ریسرچ کر رہے ہیں انہوں نے ہمارے تحصیل کلاچی کے خربوزے سے متعلق مجھے یہ لکھ کر بھیجا ہے ۔انہوں نے کہا
” کلاچی کا خربوزہ نباتات کے حوالے سے نادر قسم ہے سائنسی حوالے سے اسے unique and endemic کہ سکتے ہیں یہ قسم علاقائی آب وہوا اور دوسرے عوامل سے مل کر اس کا ارتقا یہاں کلاچی اور دامان میں ہوا ہے یہ کہیں اور سے نہیں آیا
سائنسدانوں کو اس پر کامُ کر کے اسے محفوظ کرنا چاہیے اور اس کو کلاچی کے نام سے رجسٹر ہونا چاہئے
خدا را اس کے اصلی بیج کو محفوظ کریں اور بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں میں اسے رجسٹر کرائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دامان کے باقی پودوں کی طرح اس کا نام و نشان مٹ جائے“
میری ڈیرہ کے محکمہ زراعت کے ماہرین سے گزارش ہے وہ اس طرف توجہ دیں ۔

آکاس بیل ۔۔

آکاس بیل جس درخت پر ہوتی ہے اس کا خون پی کر اسے خشک کر دیتی ہے ۔ پاکستانی معاشرہ 75 سال سے آکاس بیلوں کی زد میں ہے۔ اکاس بیلیں نباتات کی فیملی سے ہی ہیں اس لیے نقصان پہنچاتی ہیں ۔اسی طرح ملکوں اور معاشروں کو بھی اندر کے لوگ ہی تباہ کرتے ہیں ۔ جتنا درخت کم زور ہو گا اتنا آکاس بیل پھلتی پھولتی جاتی ہے ۔اپنے اندر اتحاد قائم رکھیں۔

نیئں وسدے گھر بد نیتاں دے ۔۔۔

سرائیکی ایک قدیم زبان ہے جس کے سلوگن بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ۔اوپر جو سلوگن ۔نیئں وسدے گھر، بد نیتاں دے۔۔۔لکھا ہے بظاہر اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بد نیت لوگوں کے گھر نہیں بستے مگر اس میں جو گہرائ ہے وہ صرف سرائیکی جاننے والا ہی انجاۓ کر سکتا ہے۔ جیسے کہیں ۔۔
اے ذال نیں وسدی ۔۔
۔
ٹرکوں اور گاڑیوں کے بیک مرر پر لکھے سلوگن بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔
1۔ بہو ابالا ئیں تا جھاز چا گھن ۔
ترجمہ۔۔اگر آپکو بھت جلدی ھے تو جھاز خرید لو۔۔
2۔ قسمیں ابالا وداں ۔۔۔
ترجمہ ۔ قسم سے جلدی میں ھوں۔
3۔ آ میں تیڈے جن کڈاں۔۔۔۔
ترجمہ۔ آٶ میں تمھارے جِن نکال دوں۔

کُوڑے وعدے اور ڈیرہ اسماعیل خان ۔

75 سال ہو گئے مگر ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کو کوڑے وعدے دے کے بہلایا گیا ۔گومل زام کا منصوبہ 1898ء میں زیر غور آیا اور اب 125 سال ہونے کو ہیں مگر اس کی ذیلی نہروں کی تعمیر جاری ہے۔ چشمہ لفٹ کنال کے لئے ہر سالانہ بجٹ میں رقم مختص ہوتی ہے مگر نہ جانے کہاں جاتی ہے۔ رودکوہی زاموں پر ہر سال کروڑوں خرچ ہوتے ہیں مگر کوئ صورت نہیں بن سکی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پورے ملک میں ختم ہوئ مگر یہاں زیادہ ہو گئی۔آج ہمارا درجہ حرارت اس وقت شو تو 41 ہو رہا ہے مگر feel 47 پر ہے ابھی اس نے 46 تک جانا ہے۔ بجلی پر کچھ کہنا فضول ہے۔

عمر قید درخت ۔۔۔

آج سے 125 سال پہلے 1898ء میں جب انگریزوں کی حکومت تھی تو ایک انگریز خیبر رائفل میس لنڈی کوتل میں شراب پی کے بیٹھا تھا کہ اسے برگد کا ایک درخت اپنی طرف چلتا دکھائ دیا ۔اس نے سارجنٹ میس کو حکم دیا کہ اس درخت کو گرفتار کر لو ۔چنانچہ اس درخت کو زنجیروں سے جکڑ دیا گیا اور آج تک جکڑا ہوا ہے۔سرائیکی میں کہتے ہیں ۔۔ڈھانڈاں دے ڈنگے بنے ۔۔۔ طاقتور کی زمین کی لٹھ ٹیڑھی ہوتی ہے ۔۔آج بھی ہمارا یہی حال ہے ۔۔

%d bloggers like this: