مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز بھائی نارتھ ناظم آباد میں رہتے تھے۔ ان کا ایک کمرے کا ڈرائیونگ اسکول بفرزون کے ڈی سی آفس کے سامنے تھا۔ شاید اب بھی ہو۔ میرا سسرال بفرزون میں تھا۔ آتے جاتے عزیز ڈرائیونگ اسکول کے سائن بورڈ پر نظر پڑتی تھی۔
ایک دن جیو کے میر ابراہیم رحمان نے بلاکر کہا کہ ہم آپ کی پروموشن کررہے ہیں اور 1300 سی سی کار دے رہے ہیں۔ خوشی تو ہوئی لیکن ہاتھ پاؤں بھی پھول گئے۔ میں پینتیس سال کا ہوچکا تھا لیکن ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔
اس سے پہلے دبئی میں ڈرائیونگ سیکھنے کی کوشش کرچکا تھا۔ وہاں اپنی گاڑی کے بغیر نقل و حرکت کرنا بڑا عذاب تھا۔ ہم شارجہ میں رہتے تھے۔ دبئی جاؤ تو ٹیکسی والے شارجہ آنے کو اور شارجہ کے ٹیکسی والے دبئی جانے کو راضی نہیں ہوتے تھے کیونکہ واپسی پر سواری نہیں لے سکتے تھے۔ دبئی میں بسوں کا نظام تھا لیکن ٹرین شروع نہیں ہوئی تھی۔ شارجہ میں ایسا کچھ نہیں تھا۔
میں نے ایک ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لیا۔ یہ وہاں بڑا دھندا ہے۔ آپ کتنے ہی پرانے ڈرائیور ہوں، اسکول میں داخلے کے بغیر ڈرائیونگ ٹیسٹ نہیں ہوگا۔ واحد استثنا امریکا برطانیہ کے ڈرائیونگ لائسنس کو تھا۔ وہ دکھاکر ٹیسٹ دیے بغیر ہی لائسنس مل جاتا تھا۔ اینکر سلمان حسن کو اسی طرح ملا کیونکہ اس کے پاس برطانیہ کا لائسنس تھا۔
دبئی کے ہر ڈرائیونگ اسکول میں پولیس افسر تعینات ہوتے ہیں جو کم از کم چھ کلاسیں لینے والوں کا ٹیسٹ لیتے ہیں۔ ان کا کام پاس نہیں، فیل کرنا ہوتا ہے۔ فیل ہونے والے کو اگلے ٹیسٹ سے پہلے مزید چھ کلاسیں لینا پڑتی ہیں۔ ڈرائیونگ اسکول کے مزید تین چار سو درہم بن جاتے ہیں۔
جیو کے متعدد ملازم برسوں سے پاکستان میں کار چلاتے ہوئے آئے اور کئی کئی ٹیسٹوں میں فیل ہوئے۔ مجھے تو خیر ڈرائیونگ آتی ہی نہیں تھی۔ صفر سے شروع کیا۔ بارہ پندرہ کلاسیں لیں۔ فیل ہوا۔ چھ کلاسیں لیں۔ پھر فیل ہوا۔ پھر چھ کلاسیں لیں۔ پھر فیل ہوا۔ اس بار اسکول بدلا۔ چھ کلاسیں لیں۔ فیل ہوا اور لعنت بھیج کر پیچھے ہٹ گیا۔
دبئی ڈرائیونگ اسکول کے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے انسٹرکٹر حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ وہ کہتے، تم ڈرائیونگ نہیں سیکھ سکتے۔ تمھاری عمر زیادہ ہوگئی ہے۔ تمھارے دماغ کی ہارڈ ڈسک بھر گئی ہے۔ اس میں پرانا ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں ہوسکتا اور نیا انسٹال نہیں ہوسکتا۔
میں چار بار ناکام ہوا لیکن یہ کوئی ریکارڈ نہیں تھا کیونکہ ایک کولیگ خاور سات بار اور دوسرا نسیم حیدر آٹھ بار فیل ہوا۔ نسیم نے ہمت نہیں ہاری اور نویں ٹیسٹ میں پاس ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے نہ کار خریدی اور نہ دبئی میں ڈرائیونگ کی۔ بس انا کی تسکین کی ہوگی۔ ممکن ہے کہ ڈرائیونگ اسکول کی فیسیں بھرنے کے بعد کار کے پیسے نہ بچے ہوں۔
جیو سے کار ملنے کی خوش خبری ملی تو میں نے ایک بار پھر ڈرائیونگ سیکھنے کا سوچا۔ عزیز بھائی کے پاس گیا اور فارم بھر کے فیس ادا کردی۔ دفتر میں نائٹ شفٹ چل رہی تھی اس لیے صبح کا وقت طے کیا۔
عزیز بھائی دلچسپ آدمی تھے۔ باوا آدم تو نہیں، حضرت موسی کے زمانے کی خیبر میں ڈرائیونگ سکھاتے تھے۔ گاڑی کی لگام یعنی اسٹیئرنگ حوالے کردیتے تھے لیکن کلچ اور بریک کو اپنے قابو میں رکھتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ کم از کم ابتدائی کلاسیں کسی خالی میدان میں لے جاکر ہوں گی لیکن انھوں نے آغاز ہی مصروف شاہراہ سے کیا۔
عزیز بھائی باتیں کرنے کے شوقین تھے۔ پکے مہاجر تھے اور ایم کیو ایم کے ہمدرد۔ چالیس منٹ کی کلاس میں نظریاتی تبلیغ جاری رہتی۔ میں ہاں میں ہاں ملاتا رہتا کیونکہ ٹریفک حادثے میں انتقال کرنا پسند نہیں تھا۔ عزیز بھائی تقریر کے دوران آس پاس سے بے خبر نہیں ہوتے تھے۔ کوئی سبزی والا راہ میں آتا تو اپنے پیر سے بریک لگاکر آلو پیاز کا بھاؤ پوچھ لیتے۔ ریٹ پسند نہ آتا تو سبزی والے کو جھاڑتے کہ پچھلی گلی میں سبزی سستی مل رہی ہے۔ بھاؤ پسند آجاتا یا سبزی والا کمی پر رضامند ہوتا تو دو چار کلو تلوا کر عقبی نشست پر رکھ لیتے۔ اس کے بعد ان کی ہدایات پر موڑ مڑتے مڑتے اتفاق سے ان کا گھر آجاتا تو وہ کسی کو بلاکر سامان حوالے کردیتے۔
عزیز بھائی نے دس کلاسیں تجویز کی تھیں۔ نویں کلاس کے بعد ان کا مشورہ تھا کہ مجھے مزید پانچ کلاسوں کی ضرورت ہوگی۔ میرے دل میں شیطان نے خیال ڈالا کہ یہ دبئی نہیں، اپنا کراچی ہے۔ کیوں نہ کرائے کی گاڑی لے کر میدان میں تنہا پریکٹس کروں۔ چنانچہ ایک آلٹو کرائے پر لے کر گھر آگیا۔ بیوی نے ہمت دلائی اور کہا کہ رات کو سڑکیں سنسان ہوتی ہیں، گاڑی لے کر دفتر چلے جائیں۔ میں اس کی بات مان کر گاڑی لے کر نکل گیا اور صحیح سلامت دفتر پہنچ گیا۔ پھر رات بھر خود بھی حیران ہوتا رہا کہ یہ کیا کارنامہ کر ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دن بیوی یہ بات نہ کہتی تو مجھے ڈرائیونگ سیکھنے میں کئی ماہ اور لگتے۔
چند دن بعد دفتر سے کرولا مل گئی۔ کچھ عرصے بعد اپنی کار خرید لی۔ دس سال کراچی میں خوب گاڑی دوڑائی۔ امریکا آنے کے بعد ڈرائیونگ کے پہلے ٹیسٹ میں کامیابی ملی تو دبئی والوں کی چکربازیاں یاد آئیں۔
میں ان اساتذہ کو کبھی نہیں بھول سکتا جنھوں نے لکھنا پڑھنا سکھایا، کہانیاں اور خبریں لکھنے کے گر بتائے اور تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ لیکن ایک دن آیا جب وہ تمام سبق مجھ نالائق کے کسی کام کے نہ رہے۔
وائس آف امریکا کی ملازمت ختم ہونے کے بعد میری ڈگریاں، میرا تجربہ اور میری صلاحیتیں مجھے کوئی ملازمت نہ دلواسکیں۔ تب عزیز بھائی کی سکھائی ہوئی ڈرائیونگ کام آئی۔ میں نے اوبر ایپ ڈاؤن لوڈ کی اور تیس سال بعد پہلی بار قلم کے بجائے کسی اور صورت پیسے کمائے۔
عزیز بھائی اگر پینتیس سال کے کوڑھ مغز آدمی کو ڈرائیونگ نہ سکھاتے تو عالمی وبا کے آغاز پر بیروزگار ہوجانے والا شخص مہنگے امریکا میں بیوی بچوں کو روٹی کھلانے کے قابل نہ رہتا۔
آج ٹیچرز ڈے ہے۔ شکریہ عزیز بھائی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر