مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی وہانوی کے آخری ناول کو چھپے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن لوگ آج بھی اس نام کو نہیں بھولے، حالانکہ یہ ایک فرضی نام ہے۔
ان ناولوں کو کیوں اتنی شہرت ملی؟ اس لیے کہ ان میں جنسی وارداتوں کو بے باکانہ انداز میں تحریر کیا جاتا تھا۔ یہی کام منٹو نے اپنے افسانوں میں کیا تھا اور ان کے بعض ہم عصر ادیبوں نے بھی ان کے اتباع کی کوشش کی تھی۔ لیکن کسی ادیب نے وہی وہانوی کے نام سے ناول ہی لکھنا شروع کردیے۔ ایسے درجنوں ناول شائع ہوئے۔ میں نے سنا ہے کہ یہ تعداد پچاس تک پہنچتی ہے۔
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ناول شوکت تھانوی لکھتے تھے۔
میں نے دو روز پہلے ہیوسٹن میں مقیم ممتاز نقاد احمد سہیل سے بات کی۔ انھوں نے کئی سال پہلے وہی وہانوی کے بارے میں تفصیل لکھی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ کوئی ایک نہیں، امکان ہے کہ کئی افراد یہ ناول لکھتے تھے۔ شاید ان کا خیال درست ہے کیونکہ شوکت تھانوی کا انتقال 1963 میں ہوگیا تھا۔ اس کے بعد بھی چند ناول چھپے تھے۔
مزید جن افراد کے نام اس سلسلے میں لیے گئے، ان میں منٹو، ابن صفی اور نسیم انہونوی شامل ہیں۔ یہ بھی ناقابل اعتبار ہیں۔ منٹو کا انتقال شوکت تھانوی سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ ابن صفی جاسوسی ناول لکھتے تھے اور بہت مقبول تھے۔ انھیں ایسے ناول کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نسیم انہونوی انڈیا میں رہے اور یہ ناول کراچی سے چھپتے تھے۔ وہ ایک رسالے حریم لکھنئو کے ایڈیٹر تھے اور دلچسپ بات ہے کہ اس کی پیشانی پر لکھا جاتا تھا، شریف بہو بیٹیوں کے لیے۔
احمد سہیل صاحب کے مطابق زاہد حنا صاحبہ نے عالمی ڈائجسٹ کے لیے وہی وہانوی کا ایک انٹرویو کیا تھا اور اس میں ایک تصویر بھی شائع کی تھی جو سامنے کے بجائے عقب سے لی گئی تھی تاکہ صورت نظر نہ آئے۔ میں نے زاہدہ حنا صاحبہ کو کراچی فون کیا اور اس کی تصدیق چاہی۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کوئی انٹرویو نہ کیا اور نہ عالمی ڈائجسٹ میں چھپا۔ زاہد صاحبہ کا کہنا تھا کہ وہ اس زمانے میں کم عمر لڑکی تھی۔ کسی فحش لکھنے والے کا انٹرویو کیسے کرسکتی تھی؟
بھائی خالد احمد انصاری نے جون ایلیا کے انشائیے جمع کرکے فرنود میں چھاپے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جون صاحب کا رسالہ انشا کب عالمی ڈائجسٹ میں بدلا اور زاہدہ حنا نے کب اسے جوائن کیا۔ خالد بھائی نے محترم شکیل عادل زادہ سے بات کرکے مجھے آگاہ کیا کہ انشا سنہ باسٹھ یا تریسٹھ میں عالمی ڈائجسٹ بنا تھا۔ یعنی اس سال جب شوکت تھانوی کا انتقال ہوا۔ زاہدہ حنا نے 1967 میں اسے جوائن کیا۔ تب بیس اکیس سال کی ہوں گی۔ ان کا بیان درست ہے۔
احمد سہیل صاحب نے وہی وہانوی کی ناولوں کی یہ فہرست پیش کی تھی:
ننگا شکاری، اوئی اوئی، جنسی محبت، جوانی کا انتقام، مستانی جاسوسہ، اور آگ بجھ گئی، جولی، روزی، شیلا، کنوارے جذبات، رنگیلا ڈاکٹر، عیاش ڈاکٹر، رات کے شہزادے، کئی حرامزادے، رنگیلی ماں رنگیلا بیٹا، اٹھتی جوانی، تڑپتی جوانی، بہکی جوانی، زیبی، توبہ توبہ جوانی، مجبور جوانی، عیاش نازنین، آوارہ پھول، کچے پھول، ننگی عورت، چالو لڑکی، لاجو، تاجو، مستانی، کیفے گرل، عصمت فروش، مجبور جوانی، جب جوانی آئی، جب لٹ گئی جوانی، جوانی کا طوفان، جوانی کے مزے، میرا نام ہے جوانی، بے چین لڑکی، جنم جنم کی پیاسی، ننگا بدن، گرم جوانیاں، جنسی جوانیاں، بے قرار جوانیاں، الھڑ جوانیاں، کوک شاستری لڑکیاں، حسن کا چور، رات کے شہزادے۔ ننگا بدن، بھیگی شلوار۔ ان ناموں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈبے کے اندر کیسا مال ہوگا۔
ریختہ پر وہی وہانوی کے دو ناول موجود ہیں، جن کے نام ڈارلنگ اور تگڑم ہیں۔
میں نے امریکا کینیڈا کے بہت سے کتب خانوں کو کھنگالا تو فقط ایک اور ناول روسیاہ ہاتھ لگا۔ آج کتب خانے والے گروپ میں وہی پیش کردیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ان کی جوانی کے زمانے میں لڑکوں کا یہ حال تھا کہ عورت کا ایکسرے دیکھ کر ہی اس کے عاشق ہوجاتے تھے۔ یہ ناول اسی زمانے کا ہے۔ اسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ میں نے اپنی ایک سابقہ پوسٹ میں اسے "مبینہ” فحش کیوں کہا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر