اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینئر صحافی وقار ستی کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے ، لاہورہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کا حکم

مقدمہ کے مدعی کے مطابق درخواست گزار نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے سنگین الزامات کے تحت اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ شیئرکر کے خود توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے

راولپنڈی ()عدالت عالیہ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے توہین مذہب کے مقدمہ میں نامزدسینئر صحافی کی جانب سے مقدمہ کے اخراج کے لئے دائر پٹیشن راولپنڈی پولیس کی اس یقین دہانی پر نمٹا دی ہے کہ مذکورہ ایف آئی آر کی اخراج رپورٹ تیار کر لی ہے جو 1ہفتے کے اندر مجاز عدالت میں پیش کر دی جائے گی جمعہ کے روز سماعت کے موقع پر درخواست گزار کے وکیل ملک غلام مصطفی کندوال اور اسسٹنٹ ایڈ ووکیٹ جنرل قیصر عباس شاہ، ایس ایس پی انوسٹی گیشن عامر خان نیازی اور ایس ایچ او تھانہ آر اے بازارکے علاوہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ، سینئر جوائنٹ سیکریٹری شکیلہ جلیل اورراولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ کے صدر عابد عباسی سمیت جڑواں شہروں کی مختلف صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی اس موقع پر عدالتی استفسار پر ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے عدالت کو بتایا کہ مقدمہ کے اخراج کی رپورٹ مرتب کر لی گئی ہے اور 1ہفتے کے اندر علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دی جائے گی جس پر عدالت نے پٹیشن نمٹا دی یاد رہے کہ 6اکتوبر کی تاریخ سماعت پر عدالت نے بعض قانونی نکات اٹھاتے ہوئے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کو ہدائیت کی ہے کہ اس ایف آئی آراوراس پر ہونے والی انوسٹی گیشن سمیت مقدمے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس کا ایسا مثبت حل نکالیں جس سے مقدمہ ختم ہو سکے تھانہ آر اے بازار پولیس نے 27اگست کوکیبل آپریٹرناصر محمود کی مدعیت میں نیشنل پریس کلب کے سابق سیکریٹری فنانس اورراولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدرو نجی ٹی وی چینل کے سینئروقار مسعود ستی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ295-Aاور500کے تحت مقدمہ نمبر 566درج کیا تھاجس پر وقار ستی نے مقدمہ کے اخراج کے لئے عدالت سے رجوع کیا تھا وقار ستی نے ملک غلام مصطفی کندوال اور ملک شاہد کندوال کے ذریعے تھانہ آر اے بازار کے ایس ایچ او، مقدمہ کے مدعی اور سٹیٹ کو فریق بناتے ہوئے دائر پٹیشن میں موقف اختیار کیا تھا کہ مقدمہ کے مدعی کے مطابق درخواست گزار نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے سنگین الزامات کے تحت اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ شیئرکر کے خود توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے حالانکہ درخواست گزار نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا ہے درخواست گزار کے خلاف درج ایف آئی آر پولیس کی بجائے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے دائرہ اختیارمیں آتی ہے لہٰذا یہ ایف آئی آر جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے جسے خارج کیا جائے ایف آئی آر کے مندرجات مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہیں اور درخواست گزار کے خلاف اس مقدمہ کے اندراج کا کوئی جواز نہ ہے حالانکہ فیس بک اورٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا کے حوالے سے کاروائی کا تمام اختیار صرف ایف آئی اے کو ہے درخواست گزارایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے جو مذہب یا مقدس شخصیات کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتادرخواست گزار نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے مختلف مواقع پر دیئے گئے توہین آمیزبیانات کو یکجا کر کے اپنے ٹویٹر پیغام میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ درخواست گزارعمران خان سے کیوں نفرت کرتا ہے اور درخواست گزار کے اس ٹوئٹ کا مقصد عمران خان کے ان غیر اسلامی بیانات پر بطور مسلمان اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا تھا کیونکہ درخواست گزار اللہ کی وحدانیت اور نبی پاک ﷺ کی رسالت و آخری نبی ہونے پر کامل ایمان رکھتا ہے درخواست گزار کے خلاف ایف آئی آر کا جواز اس بنا پر بنتا تھا جب درخواست گزار نے خدانخواستہ از خود ایسی کوئی ناپاک جسارت کی ہو چونکہ درخواست گزار کا تعلق میڈیاسے ہے اس طرح بحثیت مسلمان اسلامی اقدار اور حرمت رسول؛ ﷺ کا تحفظ درخواست گزار کا بنیادی حق ہے لہٰذاعدالتوں کے وقت کے ضیاع کے علاوہ اس کیس کاکوئی اور مقصد نہیں پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ درخواست گزار کے خلاف تھانہ آر اے بازار میں درج ایف آئی آر خارج کی جائے اور پٹیشن کے حتمی فیصلے تک پولیس کو کسی قسم کی کاروائی سے روکا جائے۔

%d bloggers like this: