نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دنیا کا پہلا ایڈیٹوریل کارٹون۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج محترم یاسر جواد نے اپنی تحریر کے ساتھ ایک تصویر شئیر کی۔ انھوں نے نہیں لکھا لیکن مجھے یاد آیا کہ وہ دنیا کا پہلا ایڈیٹوریل کارٹون تھا۔ وہ 9 مئی 1754 کو پنسلوانیا گزٹ میں بنجمن فرینکلن کے مضمون کے ساتھ شائع کیا گیا تھا۔ وہ اخبار بھی فرینکلن کا تھا اور خیال ہے کہ کارٹون بھی انھوں نے ہی بنایا تھا۔ اس میں ایک سانپ کے مختلف ٹکڑے دکھائے گئے تھے۔ یہ برطانوی کالونیوں کے انتشار کی طرف اشارہ تھا۔ فرینکلن اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد سے یہ کالونیاں متحد ہوئیں اور برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔
میں اس کارٹون کو کیسے پہچانا؟ اس لیے کہ میں نے جن خاص موضوعات پر بڑی تعداد میں کتابیں جمع کی ہیں، ان میں ایک موضوع ایڈیٹوریل کارٹون ہے۔ میرے پاس ایسی کئی سو کتابیں ہیں۔ امریکا اور برطانیہ کے اہم اخبارات، جریدوں اور کارٹونسٹوں کی منتخب السٹریشنوں کی کتابیں ہر سال چھپتی ہیں۔ میرے پاس ایسے کئی سلسلوں کی تمام کتابیں ہیں۔ بلکہ متنازع اور ناقابل اشاعت کارٹونوں کی کتابیں بھی ہیں۔ برطانیہ کے پنچ اور ہندوستان کے اودھ پنج کے کارٹون بھی ہیں۔
وہ کارٹون یا کیری کیچر، جو ہنگاموں کا سبب بنے، ان کے میگزین بھی ہیں۔ ایسے میگزین نایاب ہوجاتے ہیں اور ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔
واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں کی دلچسپی کا ایک عجائب گھر نیوزیم کے نام سے تھا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے ختم کردیا گیا کیونکہ اس کی عمارت ایک یونیورسٹی نے خرید لی اور شاید تمام آرکائیو بھی۔ اس میں ایک شعبہ کامکس اور ایڈیٹوریل کارٹون کا تھا۔ میں نے آخری دن وہاں جاکر جس حد تک ممکن تھا، ان کی تصاویر بنالی تھیں۔
پاکستان میں کارٹونسٹ کم ہی کتابیں چھاپنے کی توجہ کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی کتابیں مہنگی ہوتی ہیں اور ان کے خریدار کم ہوتے ہیں۔ فکشن کے برعکس ایک ملک کے سیاسی کارٹونوں کی کتابیں دوسرے ملک میں نہیں بکتیں کیونکہ ان کارٹونوں کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ اسے جانے بغیر کوئی لطف نہیں لے سکتا۔
جیو کے کارٹونسٹ ارشاد زیدی کا حال میں انتقال ہوا ہے۔ مجھے ان کی ایک کتاب کہیں ملی تو دیکھا کہ اس میں میر شکیل الرحمان کے نام کا دیباچہ ہے۔ میں کتابوں پر دستخط لینے کی فکر میں رہتا ہوں۔ ان کے پاس پہنچ گیا کہ اس پر دستخط کردیں۔ انھوں نے کتاب لے کر رکھ لی کہ اچھا۔ پھر میں امریکا آگیا اور کتاب وہیں رہ گئی۔ شکر ہے کہ مجھے اس کتاب کی ایک اور پرانی کاپی مل گئی۔
میرے پاس ڈان کے مرحوم جریدے ہیرلڈ کے الیکشن کے مواقع پر شائع ہوئے تمام خاص شمارے بھی ہیں۔ ان میں فیکا کے بہترین کارٹون شائع ہوئے۔ اگر وہ کبھی کتابی صورت میں چھپے ہیں تو میں محروم رہا۔ میں نے وائس آف امریکا کے لیے ایک سیریز کی تھی جس میں جاوید اقبال، فیکا، ظہور اور صابر نذر کے انٹرویو کیے اور پوچھا کہ پاکستان جیسے عدم برداشت والے معاشرے میں کارٹون بنانا کیسا ہے۔
میری کئی ابتدائی تحریریں لاہور سے کئی عشروں تک نکلنے والے طنز و مزاح کے رسالے تیس روزہ چاند میں چھپی تھیں۔ یہ 80ء کے عشرے کے آخر کی بات ہے جب میں میٹرک میں تھا۔ میں نے وہ پرچے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ چاند اس لیے یاد آیا کہ اس میں مزے مزے کے کارٹون چھپتے تھے۔ سرورق پر بھی اور اندر بھی۔ بلکہ آغاز ہی میں کئی صفحات پر جاوید اقبال کے قلم کی شوخیاں ہوتی تھیں۔
کراچی میں ہمارے دوست محمد عرفان کارٹون شریک بھائی ہیں۔ ہم کوئی اچھا کارٹون دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔
میں نے آج کتب خانہ گروپ میں امریکا کے ممتاز/بدنام جریدے پلے بوائے کے 50 سال کے منتخب کارٹونوں پر مشتمل کتاب شئیر کی ہے۔ یہ ایک بے ہودہ شخص کی جانب سے اپنی 50ویں سالگرہ پر کتب خانے کے قارئین کے لیے بے ہودہ تحفہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author