اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے۔

۔* کس سے منصفی چاہیں کس سے گلہ کریں *
تحریر ۔

آفتاب نواز مستوئی جام پور ۔

رقبہ ‘ آبادی ‘ ریونیو ‘ پیداوار کے لحاظ سے ضلع راجن پور کی سب سے بڑی تحصیل جام

پور میں وادی پچادھ سمیت ” 118 "مواضعات تباہ ہوئے تاریخی قصبہ بمبلی ‘ درگڑی ‘ چٹول

سمیت متعدد بستیاں ٹھیڑ ہو گئیں ” سرکار ” کی مہربانی سے یونیسف سمیت تمام نیشنل انٹر

نیشنل این جی اوز اور ادارے تحصیل راجن پور کے انڈس ہائی وے کے قرب وجوار میں چند

دیہاتوں تک محدود ۔۔

فاضل پور تا براستہ حاجی پور میراں پور لال گڑھ لنڈی سیدان سے ماڑی تک اور رود کاہا

سلطان کی براہ راست زد میں آنے والے علاقے تل شمالی سمیت داجل سے ٹبی لنڈان مڈ رندان

ٹھل علی محمد ٹھل سیرکھ وغیرہ اور ہڑند تک صرف الخدمت فاونڈیشن ۔تحریک لبیک ‘ دعوت

اسلامی ‘ مجلس آئمہ ‘ مخیر حضرات جام پور داجل کی داجل تنظیمیں نوجوان رضاکاروں کی

ٹیمیں ‘ آواز حقوق ٹیم چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک سمیت چھوٹی مقامی سماجی تنظیمیں پہنچ

پائیں جسکی جتنا بساط تھی پکے پکائے کھانے ‘ راشن ۔خیمے ‘ کپڑے وغیرہ پہنچائے اب بھی

داجل جام پور کے رضاکار نوجوان مسلسل اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں ۔

بلاشبہ جام پور کی ڈاکٹرز کمیونٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی سب نے اپنی اپنی بساط

کے مطابق میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا اور مفت ادویات فراہم کیں ریسکیو 1122 ۔اور پنجاب

پولیس کی گراں قدر خدمات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اسی طرح اسسٹنٹ کمشنر جام

پور جوکہ ایک خاتون ہیں اور خود مسلسل رات گئے تک سیلاب زدہ علاقوں میں نہ صرف

موجود رہیں بلکہ عملی طور پر بھی اپنے ریونیو سٹاف کی ہمراہ قابل قدر خدمات انجام دیں

اور اب تک جاری ہے ۔

جام پور کے ایک عام شہری کی حیثیت سے یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ اسلام آباد اور لاہور

ملتان یا دیگر اداروں کو راجن پور کا راستہ بتایا جا رہا ہے ایسی شہادتیں بھی ملی ہیں کہ جس

نے بھی ” سرکار ” سے رابطہ کیا تو اسے کہا گیا کہ ڈی جی خان جام پور روڈ ٹوٹ پھوٹ کا

شکار ہے راستہ بھی خطر ناک ہے آپ موٹر وے کے ذریعہ ظاہر پیر سے راجن پور آجائیں

۔اور پھر اسکے بعد تحصیل راجن پور میں ہی انڈس ہائی وے کے نزدیک ” سب کچھ "مکمل

ڈونرز کے فوٹو سیشن مکمل خبراں ختم ۔

اسمیں کوئی شک نہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پورے ضلع راجن پور کے سیلاب سے

متاثرہ لوگوں کی میزبانی و مہمان نوازی کرنے والا عظیم ثقافتی و سماجی شہر فاضل پور

سیلاب 2022 میں ” اپنوں کی خاص مہربانی سے ” خود پانی میں ڈوب گیا اور اس حقیقت

سے خود فاضل پور والے آگاہ ہیں مگر یہاں جس جذبے کے ساتھ الخدمت فاونڈیشن اور

سوجھل دھرتی واس نے خدمات سر انجام دیں تحسین کیلیے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے بس ایک

دعا ہے کہ جس نے بھی خلوص نیت کے ساتھ جہاں بھی انسانیت کی بے لوث اور بلا امتیاز

خدمت کی اسکا اجر یا صلہ کسی انسان کے بس میں نہیں بلکہ وہی اوپر والا پاک پرور دگار

ہی اجر دنیا و آخرت میں اسے سرفراز فرمائے آمین ۔

حرف آخر یہ کہ راشن خوراک تو شاید سب تک پہنچ چکے مگر متعدد بیماریاں جو پھیلتی چلی

جارہی ہیں خاص طور پر ملیریا ‘ خارش ‘ کھانسی نزلہ زکام کے ساتھ ساتھ حاملہ اور دودھ

پلانے والی خواتین میں غذائیت کی کمی کے باعث انیمیا ء اور دیگر اندرونی امراض اس بارے

ہر سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے ایل ایچ ویز اور لیڈی ڈاکٹرز کے ہمراہ میڈیکل

کیمپس اور ادویات کی ضرورت ہے ۔ دوسر ا اہم توجہ طلب مسلہ خیمے تو مل گئے کہیں نہیں

بھی ملے مگر سردیوں کی آمد آمد ہے گرم لباس ‘ خواتین کیلیے شالیں ‘ اور سردیوں کے موسم

کے لحاظ سے ضروری اشیاء کے علاوہ محفوظ چھتوں ( گھروں ) کی شدید ضرورت ہے یہ

بھی ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک یا علاقے کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے

جبکہ صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ فصلات کی کاشت سرائیکی وسیب میں ہوتی ہے جوکہ

اس وقت 90 فیصد سیلاب کی نظر ہو چکا ہے پہلے سے پسماندہ اور تمام تر جدید سہولتوں

سے محروم اس علاقے کا ہر چھوٹا زمیندار ‘ کاشتکار عام کھیت مزدور یا ہاری بری طرح

متاثر ہوا ہے جبکہ وادی پچادھ کے لوگوں کا گزر اوقات بھیڑ بکریاں پال کر ہوتا ہےاور اس

امر سے بھی ہم میں ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے کہ حکومتوں سے اس سلسلے میں بروقت کچھ

بھی نہیں ہونا اس لیے نیشنل و انٹر نیشنل ڈونر اداروں اور تنظیموں کو توجہ دلانے کی اشد

ضرورت ہے نیز اصولی طور پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے باہر کی ڈونر تنظیموں کو اس

شرط پر این او سی دیا جائے کہ وہ جس علاقے میں کام کریں وہاں کی فعال پنجاب چئیریٹی

کمیشن سے رجسٹرڈ سماجی تنظیموں کو پارٹنر بنائیں تمام ملازمتیں بھی اسی ضلع کے

رہائشی تعلیم یافتہ بچوں کو دی جائیں ماضی کے تلخ تجربات ہمارے سامنے ہیں جتنا بھی باہر

کی تنظیمیں اس ضلع میں آئیں تمام ملازم ‘ حتی ا کہ گاڑیاں ڈرائیورز ‘ باورچی ‘ نائب قاصد ‘

سیکیورٹی گارڈ تک اپنے علاقوں سے لیکر آئیں یہاں سے صرف چند بچیوں کو ملازمتیں دی

گئیں راجنپور جام پور کی تمام رجسٹرڈ سماجی تنظیموں اور موثر شخصیات کو غیرت اور

جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اس بار ضرور عملی قدم بڑھائیں ۔بے شک

” سرکار ” اپنی من پسند تنظیموں کو نوازے خوشامد اور ” خدمت گزاری ” کرنے والوں کو

ہی پرو موٹ کرے ہمیں اعتراض نہیں کیونکہ مقامی تنظیموں کے لوگ اتنا تو لحاظ کریں گے

کہ گاڑیاں اسی علاقے سے رینٹ پر لیں گے سوشل آرگنائزرز ‘ پروگرام مینیجرز سیکیورٹی

گارڈز اور دیگر عملہ تو اپنے شہروں سے رکھیں گے بے شک ” زور آوروں ” کی خواہش پر

جہاں بھی ترقیاتی کام کریں گے ہوگا تو تحصیل جام پور یا راجن پور کے ہی علاقوں میں

جسے مقامی لوگ ہی بہتر جانتے ہیں ۔

ہر طرح کے بغض اور جلن کی عینک اتار کر ٹھنڈے دل سے سوچئیے اور اپنی دھرتی کی

خدمت کیلیے ڈونر ز کی توجہ تحصیل جام پور کی جانب منبذول کروائیے اس کا اجر بھی اللہ آپکو دے گا

*

چلتے چلتے یہ بھی ذہن میں ضرور رکھئیے گا کہ جام پور ضلع ہوتا اسکے ایم این اے ایم پی

اے مقامی ہوتے تو کم ازکم آپکی ضلع کونسل میں اپنا” ڈیزاسسٹر مینیجمنٹ فنڈ اور مشینری "

تو موجود ہوتی ۔

%d bloggers like this: