اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرا بوڑھا ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ایک ہی پھپھو تھیں۔ میرے بچپن میں سالگرہ کے دن وہ ہمارے گھر آتیں۔ خانیوال کی بیکریوں میں تب پتا نہیں بنے بنائے کیک ملتے تھے یا نہیں۔ گھر پر چائے پانی کا انتظام ہوتا۔ ممانی، بڑی تائی امی اور کزن بھی آتے۔ پھپھو کلاوہ نکالتیں اور اس میں ایک گرہ لگاتیں۔ بابا انھیں نیگ دیتے۔ وہ اور دوسرے بڑے میرے ہاتھوں میں پیسے تھماتے۔ تائی امی میرے لیے رسالے لاتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار انھوں نے تعلیم و تربیت کا نیا شمارہ دیا تھا۔ ایک بار منشی منقیٰ کی کہانیاں لائی تھیں۔
امی بتاتی تھیں کہ میں بائیس رجب کو پیدا ہوا تھا۔ اتفاق سے امی کی بڑی بہن یعنی میری واحد خالہ کی سالگرہ کا دن بھی بائیس رجب ہے۔ کچھ لوگوں نے مشہور کردیا ہے کہ شیعہ بائیس رجب کو اس لیے کونڈوں کی نیاز کرتے ہیں کہ اس دن معاویہ کا انتقال ہوا تھا (1) میں نے اپنے دور کے کزن اور قریبی دوست عدنان مصطفی کو اپنی سالگرہ کا دن بتایا تو اس نے بے ساختہ کہا، معاویہ زندہ ہے۔
معذرت چاہتا ہوں، اس بات کا لطف صرف بدبودار شیعہ ہی لے سکتے ہیں۔
بائیس رجب کی نیاز امام جعفر صادق کے نام کی ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے میری چھوٹی تائی نے میرا نام صادق عباس رکھا تھا۔ نام تو سب بھول گئے لیکن اس کے اثرات برقرار ہیں۔ صدق یعنی سچ بولنے کو عادت نہیں، پیشہ بنائے رکھا۔
میری ولادت خانیوال میں دادا کے گھر میں ہوئی۔ ایک کنال کے اس گھر میں انھوں نے چار مرلے اپنے لیے چھوڑ کے باقی میں مسجد اور امام بارگاہ بنادیا تھا۔ جب ایک ایک کرکے ہمارا پورا خاندان کراچی منتقل ہوگیا تو انتظامیہ نے رہائشی حصہ ختم کردیا۔ وہ کمرا، جس میں میری ولادت ہوئی، اب مسجد میں شامل ہے۔
گویا میں حضرت علی اور رام جی کے اس اعزاز میں شریک ہوں کہ جس مقام پر پیدا ہوا، وہ خدا کا گھر بن گیا۔
خانیوال کی مسجد میں ہمارے تایا مولانا بوعلی شاہ نماز پڑھاتے تھے۔ بابا بتاتے تھے کہ بائیس رجب کو مغرب کا وقت تھا۔ ادھر میرے رونے کی آواز بلند ہوئی، ادھر موذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا (2)
مجھے کسی سالگرہ کا اتنی شدت سے انتظار نہیں ہوا، جتنا 20ویں سالگرہ کا۔ انتظار یوں تھا کہ کاغذ پر عمر 18 سال ہوجائے اور شناختی کارڈ بنواسکوں۔ دراصل بابا نے نویں کا امتحانی فارم پُر کرتے ہوئے میری عمر دو سال کم درج کردی تھی۔ اس زمانے کے لوگ سمجھتے تھے کہ اس طرح سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے زیادہ وقت مل جاتا ہے۔ خدا کا کرم یہ ہوا کہ میرے 18 سے 25 سال تک کا ہونے تک، بلکہ اس کے بعد بھی سرکاری بھرتیوں پر پابندی رہی۔ نہ بھی ہوتی تو بابا کراچی کا ڈومیسائل بنوانے کا مہلک اقدام کر بیٹھے تھے۔ وہ معاملہ بھی نہ ہوتا تو بھی ملازمت کہاں ملنی تھی۔ نہ سفارش تھی، نہ رشوت کے پیسے۔
جیو کی ایک بہت اچھی روایت یہ ہے کہ کارکنوں کو ان کی سالگرہ پر یاد کیا جاتا ہے۔ ٹیم پورٹل پر یاد دہانی کرائی جاتی ہے اور ایچ آر والے مبارکباد کا کارڈ بھیجتے ہیں۔ نیوزروم والوں کو یاد رہے تو کوئی دوست یا افسر کیک منگوالیتا ہے۔ میں اپنی سالگرہ کا دن کسی کو نہیں بتاتا تھا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ انصار بھائی (3) نے میری سالگرہ پر کیک منگوایا۔ اتفاق سے اس دن اتوار تھا اور دفتر میں عملہ کم تھا۔ جب میں نے بتایا کہ آج میرا چالیسواں ہے، یعنی 40ویں سالگرہ تو حیرت کے مارے کئی افراد کی چیخیں نکل گئیں۔ خود میری بھی کہ اتنی جلدی اتنا بہت سا بڑا کیسے ہوگیا۔
میں نے جرنلزم کا آغاز کھیلوں کے صحافی کے طور پر کیا تھا۔ بعد میں خیال آیا کہ اس حمام بادگرد کی طرف آنے میں میرے نام اور ولادت کے وقت کی ستم ظریفی شامل تھی۔ مبشر کا مطلب ہے، خوش خبری سنانے والا۔ پچیس سال خبروں کے کاروبار سے وابستہ رہا۔ جب ولادت ہوئی تب میونخ اولمپکس جاری تھے۔ چنانچہ کھیلوں سے فطری لگاؤ رہا۔ دکھ بھری بات یہ کہ ان اولمپکس میں فلسطینی جنگجوؤں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ نتیجہ میں نے بھگتا کہ ایکسپیریس، جنگ اور جیونیوز میں برسوں ایسی ہی خبروں کی شہ سرخیاں لکھنا پڑیں۔
بہرحال سالگرہ ایک سنگ میل ہوتی ہے۔ پیچھے مڑ کے دیکھنا چاہیے کہ اب تک کیسی گزری۔ کچھ اچھا برا کیا یا نہیں۔ کیا مرنے کے بعد یاد رکھا جائے گا، یہ ثانوی بات ہے۔ بنیادی سوال ہے کہ زندگی کا کتنا لطف لیا۔
میں نے بارہ محبتیں کی ہیں، تیرہ کتابوں پر نام چھپا ہے اور چودہ ملک دیکھے ہیں۔ دو ہجرتیں بھی کیں۔ انھوں نے دل و دماغ کو متاثر کیا۔ لیکن ان گنت مخلص دوست پائے۔ انھوں نے زندگی کو خوشگوار بنایا۔ متعدد مشاہیر سے ملنے کا موقع ملا۔ تھوڑا سا اپنا بھی نام بنایا (4) بہت سے پیسے کمائے اور خرچ کیے۔ پیسے خرچ نہ کیے جائیں تو کمانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب تک کافی اچھی زندگی رہی۔
امی بابا کی سالگرہیں مجھے یاد رہتی تھیں۔ بابا کی سالگرہ صرف ایک بار بھولا۔ کئی دن بعد بابا نے سرسری سا ذکر کیا کہ وہ پچاس سال کے ہوگئے تو میں جھنجھلایا کہ سالگرہ کا دن کیوں نکل گیا۔ گولڈن جوبلی سالگرہ کو شایان شان طریقے سے منانا چاہیے تھا۔ بابا کا چہرہ سپاٹ رہا۔ کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی اور بات ٹال دی۔ ممکن ہے، انھیں خیال ستایا ہو کہ بڑھاپے کی سرحد آن پہنچی۔
ہندوستان پاکستان میں عام شخص پچاس کا ہونے پر بوڑھا سمجھا جانے لگتا ہے۔ کوئی نہ سمجھے تو بندہ خود کو بزرگ سمجھ لیتا ہے۔ رس بھرے انگور سے منشی منقیٰ بن جاتا ہے۔ چال میں استقامت اور گفتگو میں سنجیدگی بڑھ جاتی ہے (5) سفید داڑھی نمودار ہوجاتی ہے۔ نماز چاہے پہلے کبھی نہ پڑھی ہو لیکن پنج وقتہ شروع ہوجاتی ہے۔ بابے جنازوں میں زیادہ شریک ہونے لگتے ہیں، جیسے ان کی باری پر تمام مردے قرض چکانے کے لیے جنازے میں شریک ہونے آئیں گے۔
سالگرہ پر لوگ لمبی عمر کی دعائیں دیتے ہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ لمبی زندگی کا مطلب ہے، لمبا بڑھاپا۔ اس سے بیشتر لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ بیماریاں لگ جائیں گی۔ جمع پونجی ختم ہوجائے گی۔ پنشن، اگر ملے گی تو گزارہ نہیں ہوگا۔ اولاد چھوڑ کے بھاگ جائے گی۔ نمازیں پڑھنے کے سوا کوئی مصروفیت نہیں رہے گی۔ باقی سب کچھ برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن آخری نکتہ، یعنی کچھ کرنے کو نہیں رہے گا، روح فرسا ہے۔ اس سے گھبرا کے بہت سے لوگ جلدی مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
امریکا میں ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہے۔ نوے سال کا آدمی کام جاری رکھے تو کوئی نہیں کہتا کہ بابا جی، فوت نہیں ہونا چاہ رہے تو کم از کم ادارے میں جگہ ہی خالی کردیں۔ نہیں، ایسا نہیں کہا جاتا۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی عمریں لمبی ہیں۔ لوگ کام کرتے ہیں اور فٹ رہتے ہیں۔ کوئی نہیں روتا کہ مصروفیت نہیں ہے۔ آپ کسی اسپتال چلے جائیں، لائبریری چلے جائیں، فلاحی دفتر چلے جائیں، کچھ بزرگ مرد اور خواتین ملیں گے جو رضاکارانہ کام کررہے ہوں گے۔ امریکی 80 سال کے ہوجائیں، وہیل چئیر کے بغیر حرکت نہ کرسکتے ہوں، تب بھی گھر بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔
لکھنے والا تو ویسے ہی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی مصروفیت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ زندگی جتنی لمبی ہوتی جاتی ہے، تجربہ جتنا زیادہ ہوتا جاتا ہے، یادیں جس قدر جمع ہوتی جاتی ہیں، کہانیاں اتنی زیادہ ملتی جاتی ہیں۔
جی ہاں، آج میں پچاس سال کا ہوگیا ہوں، لیکن میرا بوڑھا ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ جب تک آنکھوں میں دم ہے، دل میں دھڑکن ہے، انگلیوں میں جان ہے، قلم چلتا رہے گا، محبتیں ہوتی رہیں گی، جوانی برقرار رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ بات غلط مشہور ہوئی ہے۔ ایسا ہوتا تو یزید کی موت پر بڑا جشن منایا جاتا
(2) یہ داغ کے شعر کا دوسرا مصرع ہے، پہلا یوں ہے: دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
(3) جیونیوز کے کنٹرولر انصار نقوی، جو 22 مئی 2020 کو کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے
(4) مذہبی تصورات اور سیاسی مسخروں پر تنقید کی وجہ سے بدنام بھی کیا گیا لیکن مجھے سچ بولنے کوئی افسوس نہیں
(5) اس کا اطلاق یوتھیوں پر نہیں ہوتا۔ یوتھیا کسی بھی عمر کا ہو، عقل نہ ہونے کی وجہ سے سنجیدہ بات کرنے کے قابل نہیں ہوتا

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: