دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہجرت کرنے والوں کی سچی کہانیاں ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقسیم ہند پر سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ فکشن بھی بہت لکھا گیا ہے اور نان فکشن بھی۔ بلکہ ہجرت کرنے والوں کی سچی کہانیاں افسانوں سے زیادہ پراثر ہیں۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں 27 کتابیں جمع کردی ہیں اور اس کا لنک کتب خانے والے گروپ میں دے دیا ہے۔ جب فرصت ہو اور دل چاہے تو یہ اچھی کتابیں پڑھیں۔ اگرچہ ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے لیکن ماضی کی غلطیوں کو سمجھنے اور آئندہ ان سے بچنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔
ان میں فریڈم ایٹ مڈنائٹ شامل ہے جو شاید اس موضوع پر مغرب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ ہیکٹر بولیٹو کی قائداعظم پر کتاب کمیاب ہے حالانکہ یہ کئی عشروں تک ان کی زندگی پر عمدہ ترین تصنیف سمجھی جاتی تھی۔ فاطمہ جناح اس سے خوش نہیں تھیں اور انھوں نے مائی برادر اسی کے بعد لکھی تھی۔ میں نے ان دونوں کتابوں کو شامل کیا ہے۔ اسٹینلے وولپرٹ کی جناح آف پاکستان اور جسونت سنگھ کی جناح انڈیا پارٹیشن انڈی پینڈنس کو بھی۔
روزز ان دسمبر شاید پاکستان میں دستیاب نہ ہو۔ یہ محمد علی کریم چھاگلا کی کتاب ہے۔ وہ بمبئی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور انڈیا کے وزیر خارجہ رہے۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ قائداعظم کے کئی سال تک اسسٹنٹ تھے۔ انھوں نے کہیں لکھ دیا کہ قائداعظم پورک کھاتے تھے اور شراب پیتے تھے۔ اس کے بعد ان کی کتاب پاکستان میں کیسے مل سکتی تھی۔ اس میں اور بھی کافی کچھ ہے۔
یاسمین خان کی دا گریٹ پارٹیشن، عائشہ جلال کی دا اسٹرگل آف پاکستان، اشتیاق احمد کی پنجاب بلڈئیڈ پارٹیشنڈ اینڈ کلینڈ، ابوالکلام آزاد کی انڈیا ونز فریڈم اور وولپرٹ کی شیم فل فلائٹ بھی آپ ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔
خوش ونت سنگھ کا ناول ٹرین ٹو پاکستان، سلمان رشدی کا مڈنائٹ چلڈرن اور امیتاو گھوش کا ناول دا شیڈو لائنز بونس کے طور پر اس ذخیرے میں شامل ہیں۔
بعض دوست اور فالوورز پوچھتے ہیں کہ کتب خانے والے گروپ کا لنک کہاں ہے۔ وہ میری پروفائل سے مل سکتا ہے، ٹائم لائن پر بھی ہے، ورنہ سرچ میں جاکر مبشر علی زیدی کا کتب خانہ لکھیں گے تو سامنے آجائے گا۔ میں یہاں جان بوجھ کر نہیں لکھتا کیونکہ پھر پوسٹ کی ریچ کم ہوجاتی ہے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ اوپر فالوورز کا لفظ لکھا۔ فالوورز یا سیلی بریٹیز کے ہوتے ہیں یا علما کے۔ میں طالب علم ہوں اور فیس بک جنھیں فالوورز کہتا ہے، انھیں خیرخواہ سمجھتا ہوں۔
میں سنہ 47 کے امریکی اور برطانوی اخبارات دیکھ رہا ہوں جن میں فسادات بلکہ قتل عام کی خبریں بھری پڑی ہیں۔ ٹرینوں پر حملوں میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ میرے نانا نانی ایسی ہی کسی ٹرین سے پاکستان آئے تھے۔ بڑے ماموں کا لڑکپن تھا۔ آٹھویں پاس کرچکے تھے۔ وہ اس سفر کا حال سناتے تھے۔
پرانے اخبارات میں ایک عجیب خبر یہ دیکھی کہ کسی اسٹیشن پر مسلمان اور ہندو مسافروں کی ٹرینیں آتے جاتے رکیں تو مسلمانوں نے ہندووں پر حملہ کردیا۔ ایک افسوس ناک خبر پائی کہ پاکستان سے ہندوستان جانے والے ڈیڑھ لاکھ ہندووں اور سکھوں کو بچانے کے لیے ہندوستانی فوج شکرگڑھ تک گھس آئی لیکن صرف 1500 افراد زندہ ملے۔ دور تک لاشیں پڑی تھیں۔ ممتاز ناول نگار عبداللہ حسین لاہور میں ایسے ایک واقعے کے چشم دید گواہ تھے۔ وہ واقعہ انھوں نے فیس بک پر لکھا تھا اور آصف فرخی نے اپنے رسالے دنیازاد میں اسے نقل کیا تھا۔
سب سے اہم خبر گارڈین میں پڑھی۔ اس کے رپورٹر نے 16 اگست کو خطرے اور مجرموں کی نشاندہی کردی تھی لیکن شاید سب اندھے ہوگئے تھے۔ رپورٹر نے لکھا کہ دوسری جنگ عظیم کے لیے ہندوستان سے پچیس لاکھ فوجی بھرتی کیے گئے تھے۔ جنگ کے بعد ان میں سے 15 لاکھ سے زیادہ کو فارغ کردیا گیا۔ درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے اور فسادات سے بچنا ممکن نہیں۔ ان فسادات میں سابق فوجیوں کا کردار نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author