مئی 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تہذیب سے تمدن تک کا سفر (3) ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئے موسم رنگیلے سہانے۔۔
تہذیب سے تمدن تک کا سفر3
جیسا کہ عرض کیا ملتان صدر کینٹ بورڈ ہائ سکول نے میری شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ یہاں پینٹ شرٹ اور بوٹ پہن کے ڈسپلن اور تیاری میں آنا ہوتا۔ ٹاٹ کی بجائے بنچ بیٹھنے کو ملا۔سکول کا بہت بڑا ہاکی گراونڈ تھا اور میں ہاکی کا جوشیلا کھلاڑی۔ کرکٹ اس وقت اتنی پاپولر نہیں ہوئ تھی ۔چار پانچ دن کے ٹسٹ میچ تو بوریت کا سامان تھا۔اصل کرکٹ ٹی وی اور کیری پیکر نے 50 اوور کا کھیل شروع کر کے مقبول کرائ۔ہاکی میں پاکستان اور انڈیا ٹاپ ٹیمیں تھیں جو اولیمپک جیت جاتیں۔ ہماری بد قسمتی یہ کہ ہم جسمانی طاقت کو سب کچھ سمجھتے رہے اور ماینڈ کی طاقت کو نظر انداز کیا جو سائینس ٹکنالوجی کی بنیاد بنی۔ہوا یہ کہ اس وقت وڈیو ریکارڈنگ نئ نئ ایجاد ہوئ تھی ۔ہماری ہاکی کی سبقت کو دیکھ کر انگلینڈ آسٹریلیا اور ہالینڈ نے ہمارے کھیل کی وڈیوز بنائیں اور ہماری مووز moves کا توڑ تلاش کر لیا اس دن سے ہاکی یورپ چھین لے گیا۔اسی طرح ہمارے رستم ہند پہلوان صبح پانچ مرغوں کی یخنی کھا کے طاقت بڑھاتے رہے اور جاپانی پہلوان انوکی نے انوکی لاک ایجاد کر کے گیم جیت لی۔چینی پہلوان بروس لی Bruce Leeنے مارشل آرٹ سیکھ کر دھوم مچا دی۔ ہمارے لوگ پورا سال پیدل سفر کر کے حج کرتے تھے عمرے تو بہت کم ہوتے اب میں حرم پاک میں کراچی کے کئ لوگوں سے ملا ہوں جو جمتہ المبارک صبح ناشتہ کر کے جہاذ پر مکہ مکرمہ یا ۔مدینتہ المنورہ گیے جمعہ کی نماذ ادا کی شام کو واپس گھر کھانا کھایا۔
بات دور چلی گئ میرے سکول کےاساتزہ اعلی تعلیم یافتہ اور بلڈنگ نئی تھی
میرے سکول کے قریب امپیریل سینما تھا جس کو میں سکول آتے جاتے باہر سے دیکھتا مگر سینما دیکھنے سے ابھی دور تھا۔اس کے پوسٹر اورقد آدم تصاویر دل لبھاتیں ۔ سکول میں بڑے افسروں اور تاجروں کے بیٹے میرے کلاس فیلوز تھے جو فلم کی باتیں کرتے مگر میں اس ڈسکشن میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ آخر کار چار پانچ دوستوں نے مجبور کیا کہ فلم دیکھنی چاہیے کیونکہ وہ ہر ہفتے فلم دیکھتے تھے۔ امپیریل سینما میں اس زمانے ۔۔سات لاکھ ۔۔فلم لگی تھی اور ایک شو تین بجے سہ پہر سے چھ بجے شام تک ہوتا تھا۔ خیر سب دوست اکٹھے فلم دیکھنے سینما کے اندر بیٹھے تو میں نے پہلی بار اتنا بڑا پردہ سکرین دیکھا جس میں انسان مورتیوں کی طرح چلتے پھرتے اور بولتے تھے۔ اس زمانے سات لاکھ بہت مقبول فلم تھی جس نے دھوم مچا رکھی تھی۔ صبیحہ ہیروئین اور سنتوش کمار ہیرو تھے جبکہ نیلو اگرچہ مہمان اداکارہ تھی اس پر زبیدہ خانم کا گایا مشھور گانا ۔اے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آجا بالما فلمایا گیا تھا ۔میرا خیال ہے نیلو کو اس گانے سے کافی شھرت ملی اور وہ صف اول کی اداکاراوں میں شمار ہونے لگی۔ اس فلم میں سات گانے تھے جو سارے ہٹ ہوئے۔۔ گھونگھٹ نکالوں کہ گھونگھٹ اٹھا لوں۔۔۔یارو مجھے معاف دکھو میں نشے میں ہوں۔ ستمگر مجھے بے وفا جانتا ہے میرے دل کی حالت خدا جانتا ہے ۔قرار لوٹنے والے تو قرار کو ترسے۔ اس فلم کی کامیابی میں نغمات نے اہم کردار ادا کیا۔
یہ فلم میرے دل و دماغ پر ایسی چھائ کہ پھر کئی بار دیکھی۔اے موسم رنگیلے سہانے گانا تو مجھے اتنا اچھا لگا کہ گاوں آکر بانسری کی دھن پر دوستوں کو سناتا اور سب انجاے کرتے۔۔
جاری ہے

%d bloggers like this: