مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص منفرد ہوتا ہے۔ کوئی سے بھی دو افراد کے خیالات بالکل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ میاں بیوی، سگے بھائیوں اور لنگوٹیے دوستوں کے بھی نہیں۔ کہیں مذہب پر اختلاف ہوتا ہے، کہیں سیاست پر، کہیں نسل اور زبان کا تعصب آجاتا ہے، کہیں کھلاڑیوں اور فنکاروں پر پسند الگ ہوجاتی ہے۔ مطالعے کے شوقین افراد نظریات اور کتابوں پر بحث میں الجھ جاتے ہیں۔
سمجھ دار لوگ سوچتے ہیں کہ زیادہ اہم بات کیا ہے۔ اس نکتے پر جو ہم خیال دوست مل جائے، اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ حماقت ہوگی کہ اہم معاملے پر ہم خیال دوست کو غیر اہم معاملے پر کھو دیا جائے۔
میں نے ہمیشہ خواتین کا بہت احترام کیا ہے۔ دوستی کو ہمیشہ حد میں رکھا۔ جن لڑکیوں نے مبشر بھائی کہا، انھیں بہن ہی سمجھا اور کہا۔ شکرے ہر ادارے میں ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کو ان سے بچایا۔ کراچی میں خواتین صحافیوں نے ایک تقریب رکھی تو بس ایک دو مردوں کو مدعو کیا۔ مجھے عزت بخشی۔ میں بھی شکرگزار ہوا۔
پھر ایک بار سوشل میڈیا پر میرے کسی بے ضرر جملے کا غلط مطلب لے کر پرانی واقف خواتین نے مہم چلادی۔ شاید ایک بیان بھی جاری کیا۔ میں نے دو تین بہنوں کو فون کیا کہ یہ کیا ہوا۔ کیا آپ مجھ سے واقف نہیں۔ یونہی بے معنی سے فقرے پر اتنا غم و غصہ کیوں؟ وہ ماتھے پر آنکھیں رکھ کر موم بتی آنٹی بن گئیں۔ میں نے بھی دوستی کی شمع گل کردی۔ میرا کچھ نہیں گیا، وہ ایک ہم خیال دوست سے محروم ہوگئیں۔ شدت پسندی جیسی بھی ہو، بری شے ہے۔
دوسرا تجربہ ہر سال محرم میں ہوتا ہے۔ مذہب پرستوں کی مجھے پرواہ نہیں ہوتی۔ لیکن عقلیت پسند دوستوں پر تعجب ہوتا ہے۔ وہ طعنہ دیتے ہیں کہ میں دس دن کے لیے بدل جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ تین سو پچپن دن کو کیوں فراموش کردیتے ہیں۔
انسان سراپا عقل نہیں ہوتا۔ ہو نہیں سکتا۔ عقلیت پسند محبت کرتے ہیں جو دماغ سے نہیں ہوتی۔ عقل سے حساب کتاب کرکے محبوب کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ فری تھنکر بن کر آپ اپنے آباواجداد اور خاندان سے تعلق بھی نہیں توڑ لیتے۔ تہوار منانا بھی جاری رکھتے ہیں۔
خود سب کچھ کرکے کسی دوسرے پر طنز کرنا، فضول میں مضحکہ اڑانا، دوسروں کے احمقانہ فقروں پر داد دینا اور ٹھٹھا اڑانا آسان تو ہے اور مزہ بھی آتا ہے لیکن ہم خیال دوست کھو جاتا ہے۔
علی اکبر ناطق ابھی امریکا آئے ہوئے تھے تو ان سے کافی دیر گرماگرم بحث ہوئی۔ وہ خفا بھی ہوگئے، اگرچہ اظہار نہیں کیا۔ میں نے مذہب کے خلاف بات کی اور عقلیت پسند دوستوں کی حمایت کی۔ ناطق نے کہا، جنھیں آپ فری تھنکر سمجھتے ہیں، وہ ہمیشہ علی اور حسین پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ابوبکر اور عمر پر ان کا اظہار خیال دیکھا؟
میں کوئی جواب نہ دے سکا۔ ہاں، فری تھنکرز گروپ کا رکن ہوں جہاں معاویہ اور یزید کی بھی حمایت دیکھی ہے۔ تنقید واقعی صرف ان تین ہستیوں پر ہوتی ہے جو لیزلی ہیزلٹن کی کتاب کے باب ہیں۔
جہاں تک مجھ پر تنقید کا معاملہ ہے، میری کھال موٹی ہوچکی ہے۔ زندگی بھر جملے بازی کی ہے۔ جو لوگ کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر ساتھ ہیں، وہ تیز دھار جملے دیکھ چکے ہیں۔ پہلے کوئی ایک سیر کی اینٹ اچھالتا تھا تو میں ایک من کا پتھر دے مارتا تھا۔ رفتہ رفتہ نظر انداز کرنا سیکھ لیا۔ بقول چرچل، راستے میں بھونکنے والے ہر کتے کو پتھر ماریں گے تو منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔
مذہبی اور سیاسی یوتھیے سو پچاس لائیکس کی خاطر میرا نام اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں تو وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن افسوس ان پر ہوتا ہے جو لونڈوں لپاڑوں کے ساتھ لہر میں بہہ جاتے ہیں۔ یاحیرت، ان میں وہ مایوس العلاج بزرگ بھی شامل ہیں جو عضو تناسل قبر میں لٹکائے بیٹھے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر