مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کتب خانے والے گروپ میں ایک صاحب نے عطا اللہ شاہ بخاری کے نام سے ایک ویڈیو شئیر کی۔ بخاری صاحب تھے یا کوئی اور، وہ کہہ رہے تھے کہ اہل تشیع عاشور پر جو ماتم کرتے ہیں، اس کا آغاز شہادت امام حسین کے تین سو سال بعد ہوا۔
ان کا انداز اور الفاظ گھٹیا تھے لیکن بات درست کررہے تھے۔ دراصل انھوں نے دلیل فراہم کی کہ تین سو سال تک امام حسین کا غم نہیں منانے دیا گیا۔ پہلے اموی خلفا اور بعد میں عباسیوں نے اہلبیت کے ماننے والوں پر ظلم کیے۔ تاریخ بھی اپنی مرضی کی لکھوائی اور جھوٹی حدیثیں بھی گھڑی گئیں۔
بہت سے اہلسنت سمجھتے ہیں کہ عباسیوں کا دور اہل تشیع کے حق میں تھا کیونکہ ایرانی ان کے ساتھ تھے۔ یہ خیال غلط ہے۔ اہل تشیع اپنے آئمہ کے قاتلوں پر لعنت کرتے ہوئے عباسی خلفا کے نام بھی لیتے ہیں۔ عباسیوں کو وہی ڈر تھا جو امویوں کو تھا۔ یعنی آل فاطمہ نے خلافت پر دعوی کیا تو لوگ ان کے ساتھ ہوجائیں گے۔ اس لیے وہ انھیں قتل کرتے تھے یا قید کردیتے تھے۔ امام زادوں کو جان بچانے کے لیے بار بار ہجرت کرنا پڑتی تھی۔
میرے دادا نے ہجرت کی، میرے والد نے ہجرت کی اور پھر میں نے بھی ہجرت کی۔ میں اندازہ کرسکتا ہوں کہ اس زمانے میں کیا حالات رہے ہوں گے۔ جو لوگ صدیوں سے ایک مقام پر جم کر بیٹھے ہوں، وہ یہ بات مشکل ہی سے سمجھ پائیں گے۔
بات عزاداری سے شروع ہوئی تھی۔ اس کی ابتدا بی بی زینب نے کی جنھوں نے شام میں پہلی بار مجلس حسین بپا کی اور ماتم ہوا۔ اس کے بعد امام زین العابدین اور ان کی اولاد نے مجالس جاری رکھیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ امیر مختار کے دور میں پہلی بار کربلا میں خون کا ماتم ہوا۔ لیکن سرکاری سطح پر صدیوں تک پابندیاں رہیں۔
اب آپ عزاداری کو سڑکوں پر بند کرنے یا محدود کرنے کی بات کرتے ہیں تو شیعہ اسی لیے بھڑک جاتے ہیں۔ وہ ہزار سال بعد بھی ان مظالم کو نہیں بھولے جو امویوں اور عباسیوں نے کیے۔
عزاداری کیسے شروع ہوئی، کب کس جگہ پہلی بار سرکاری طور پر غم منایا گیا اور اہلسنت کے نقطہ نظر سے اس کا اثبات کیسے ہے، میں نے اس بارے میں کتب خانے کے گروپ میں 1941 کی چھپی ہوئی کتاب شئیر کی ہے جو سبط الحسن فاضل ہنسوی نے لکھی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر