اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جھوٹ کے پاؤں۔۔۔||فضیل اشرف قیصرانی

سچ کی دوکانوں پر شٹر توڑ رش ہے اور جھوٹ کے سوداگر اپنی دوکانیں اس آس پر بند کیے ہوۓ ہیں کہ اپنا وقت پھر سے آۓ گا۔کوئ بتاۓ جا کر صاحبان کو کہ وقت آیا بھی تو بس مختصر سا ہو گا کہ قاری کب تک جھوٹ کے واری جاۓ گا۔آخر کو قاری کا نیٹ پیکج اسکی محنت کی کمائ سے پڑتا ہے۔کون ہو گا بھلا جو اپنا نیٹ پیکج جھوٹ کے پڑھنے میں برباد کر دے۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے بچوں کو فخریہ پڑھایا جانے والا باباۓ پروپیگنڈا گوئبلز کا قول کہ “جھوٹ اتنا بولو کہ وہ جھوٹ سچ دکھنے لگے” اتنا تناور ہو چکا ہے کہ اب اس کے رد کا قول ڈھونڈنے میں لگیں ہیں اسی قول کے پرچارک۔محمد بن قاسم سے محمود غزنوی اور محمد غوری سے تحریک آزادی تک اسی قول کے سہارے کیا کیا نہیں لکھا گیا۔کیسے کیسے بت نہیں تراشے گۓ اور کیسے کیسے خداؤں کا قتل نہیں کیا گیا۔اک آس کے سہارے بس کہ ایک دن آۓ گا کہ سچ دفن ہو جاۓ گا اور ہمارا جھوٹا سودا من و من بکے گا، مگر کہنے والے کہہ گۓ کہ سچ آخر کو سچ ہے بن پاؤں کے بھی چلے گا اور جھوٹ کے تو سرے سے پاؤں ہی نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں سچ کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا آج وہ اپنے بیوی بچوں حتی کہ پوتوں اور نواسوں سمیت پوری برادری کی صورت دھار چکا ہے۔پہلی بار ، جی ہاں سرکار پہلی بار “ اصل سچوں” کا سچ نہیں بک رہا اور جھوٹوں کے جھوٹ کی لوٹ سیل مچی ہے۔اب کے پہلی بار ایسی صورت آئ ہے سو پریشانی ہے کہ شکلوں اور عملوں دونوں سے آشکار ہے۔کوئ صورت بنتی دکھائ نہیں دیتی سو پھر سے وہی عمل کہ لفظ کی حرمت کو یوں تار تار کر ڈالو کہ لفظِ لفظ پر سے لوگوں کا ایمان اٹھ جاۓ۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ لفظ یتیم توں ہو سکتا ہے بے اولاد نہیں اوریہی سبب ہے کہ لفظ اپنے بولنے والوں کے منہ سے منہ زور انداز میں برآمد ہوتا چلا آیا ہے اور ہنوز یہ رسم جاری ہے۔بولنے کی رسم آج بھی جاری ہے۔سچ کے پودے بار آور ہونے لگیں ہیں۔گلی گلی سچ بولا جا رہا ہے۔سچ کی ترویج کی جا رہی ہے اور سچ لکھنے والے اپنا اپنا سچ لے کر جھوٹ کے بازار میں جھوٹوں کی دوکانوں کے مقابل پدھار چکے ہیں۔
سچ کی دوکانوں پر شٹر توڑ رش ہے اور جھوٹ کے سوداگر اپنی دوکانیں اس آس پر بند کیے ہوۓ ہیں کہ اپنا وقت پھر سے آۓ گا۔کوئ بتاۓ جا کر صاحبان کو کہ وقت آیا بھی تو بس مختصر سا ہو گا کہ قاری کب تک جھوٹ کے واری جاۓ گا۔آخر کو قاری کا نیٹ پیکج اسکی محنت کی کمائ سے پڑتا ہے۔کون ہو گا بھلا جو اپنا نیٹ پیکج جھوٹ کے پڑھنے میں برباد کر دے۔
سانحہ بابڑہ، باچا خان، ولی خان، شیخ مجیب، بھٹو صاحب، نیپ کی تمام بلوچ قیادت ، سندھ کے لوگ، قومی سوالات، وسائل کی بات، چار مارشل لاز، فوج کشیاں، آپریشنز، سینسر شپ، افغان جہاد اور تمام تر سیاسی، آئینی و عدالتی تاریخ پر اب مورخ کا قلم چل پڑا ہے۔پریشانی صاحبان کو بس کہ یہ ہے کہ مورخ کی تو خیر ہے موۓ سوشل میڈیا کا کیا کریں کہ ہمارا صفحہ تو تب جا کے کھلتا ہے قاری کے آگے جب قاری پہلے ہی اسی موضوع پر کئ صفحات دیکھ چکا ہوتا ہے اور ہمارے صفحے تک یا پیکج ختم ہو جاتا ہے یا قاری سو جاتا ہے اور باقی کے قارئین کے ہاں بعد از سچا صفحہ کچھ کھلی تو وہ ایپ یا پب جی کی ہے یا ٹک ٹاک سو ہمارے سودے میں اب کہ خریدار بھی ہم ہی ہیں اور دوکاندار بھی۔

فضیل اشرف قیصرانی کی مزید تحریرں پڑھیں

%d bloggers like this: