اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زمینی، ثقافتی اور تاریخی جُڑت والے علاقے سیلاب کی زد میں||فضیل اشرف قیصرانی

اس دوران وہ دوست جو سیلاب زدگان کی مدد میں پیش پیش میں ہیں، ان سے تعاون یوں ہی جاری رکھئیے گا کہ عوام سے عوام کی جڑت ہی بہتری کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمینی، ثقافتی اور تاریخی جُڑت کے تحت باہم ملحق علاقے ڈیرہ جات و بلوچستان اس وقت شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔سیلاب کہہ لیں یا پھر حکومتی و ریاستی عدم توجہی، مگر اس وقت ایک آفت ہے جو اس بد قسمت بلوچ وطن کو اپنی بد ترین لپیٹ میں لیے ہوۓ ہیں۔کھیت کھلیان، جانور، گھر بار ، غرض اثاثے کے نام پر جو کچھ تھا وہ پانی بُرد ہو گیا۔
نصیب اچھا پایا تو جان بچ گئ وگرنہ جانی نقصان اس شدت کا ہے کہ انسان اگر انسان کا درد محسوس کر سکے تو شاید کئ راتیں سو نہ پاۓ۔تونسہ کے علاقے جو رودکوہیوں پر آباد ہیں یا پھر دریا پر، ہر طرف سے سیلاب کی نذر ہو رہے ہیں۔ہر جانب سیلاب کے بعد حکومت کے کہیں نہ پاۓ جانے کے شکوے ہیں حالانکہ یہ سیلاب بھی انہی لوگوں کی وجہ سے ہے جو عوام پر زمین کو فوقیت دینے کی روش پر چلتے چلے آ رہے ہیں۔
آخر کونسی ایسی ڈگری ہے ہمارے ان لوگوں کے پاس کہ یہ تمام تر علوم کے ماہر جانے جانے کے بعد خود کو پانی کی نقل و حرکت، تقسیم کار، انہار، آبپاشی اور دریاؤں کا بھی ماہر مانتے ہیں۔سندھ کی فلڈ پاکٹس کا خاتمہ، رقبوں کی الاٹمنٹ کے بعد رقبوں کے لیے نہر کا نظام( نہر ہیڈ محمد والا)، چشمہ رائیٹ بینک کینال کے ڈیزائن کے نقص، رودکوہیوں کی راہ میں رکاوٹیں اور پھر جب اپنی ہی مجرمانہ غفلت سے پانی بپھر جاۓ تو بھپرے پانی کا رخ عوام کی جانب پھیر دینے کے ماہر۔کون ہیں یہ لوگ؟ کیا ہیں یہ لوگ؟
مگر سلامتی دھرتی واسوں پر کہ جرات و استقلال کے سارے اشارے اور استعارے انکے نام کہ یہ دریا برد بستیوں میں پہنچے۔مقدور بھر بلکہ اپنی استطاعت سے بلند ہو کر اپنے لوگوں کا ساتھ دیا اور اتنا سا ضرور کر پاۓ کہ سیلاب زدگان کو راشن و رہائش فراہم کر دیا۔اس دوران موسم نے وقفہ ضرور دیا مگر حکومت و ریاست پھر بھی نہ پہنچ پاۓ کہ کینسر و سیلاب ہماری وجہ سے جبکہ آبادی و خوشحالی انکی وجہ سے، اموات و بیماریاں ہماری وجہ سے جبکہ معدنیات انکی وجہ سے، جرائم و بے سکونی کے ذمہ دار ہم جبکہ امن و امان کے ضامن وہ اور تو اور شاید ان بارشوں، رودکوئیوں اور بربادی کے ذمہ دار بھی ہم جبکہ ہمارے نجات دہندہ وہ۔
کوئ نجات دہندوں سے ہی نجات دلا دے کہ نجات کے نام پر جو کچھ ہم بھگت رہے ہیں ایسی نجات سے ہم یوں ہی بھلے۔نجات دہندے فارغ ہوں تو آ کر ملاحظہ کر جائیں کہ سلیمان میں لگی آگ ایران کا ہیلی بجھا گیا تھا اور آج بس دھرتی واس ہی دھرتی واسوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اور جرات کے ساتھ مشکلات سے نکالنے کے کام میں جتے ہیں۔
احباب!
اس دوران وہ دوست جو سیلاب زدگان کی مدد میں پیش پیش میں ہیں، ان سے تعاون یوں ہی جاری رکھئیے گا کہ عوام سے عوام کی جڑت ہی بہتری کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
سلامتی ہمارے دوستوں پر جو سیلاب زدگان کے ساتھ ہیں
سلامتی ان پر جو پیچھے رہ کر انکی اخلاقی و مالی مدد کر رہے ہیں
سلامتی ان پر جو لٹ گۓ مگر کسی کو لوٹنے کا نہیں سوچا

فضیل اشرف قیصرانی کی مزید تحریرں پڑھیں

%d bloggers like this: