مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رچرڈ برٹن کا سفرنامہ حج||مبشرعلی زیدی

خاص بات یہ ہے کہ ابن جبیر کا سفرنامہ سات صدیوں تک محض عربی مخطوطہ ہی تھا۔ اسے انگریز مستشرق ولیم رائٹ نے پہلی بار 1852 میں چھاپا۔ برٹن کو عربی آتی تھی۔ اس نے وہ پڑھا اور اگلے ہی سال حج کرنے نکل کھڑا ہوا۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رچرڈ برٹن کے سفرنامہ حج میں بہت سے دوستوں نے دلچسپی لی۔ اردو میں ترجمہ پڑھنے اور کرنے کی خواہش بھی ہوئی۔ اب یہ میرا فرض تھا کہ انگریزی کتاب فراہم کروں۔
لیکن اس سے پہلے ایک دو اور باتیں بتانا ضروری ہے۔ آپ نے ابن انشا کا سفرنامہ آوارہ گرد کی ڈائری پڑھا ہوگا۔ ابن انشا یورپ میں بار بار منشی محبوب عالم کا سفرنامہ کھول کر بیٹھ جاتے تھے جو ان سے نصف صدی پہلے یورپ گئے تھے۔ رچرڈ برٹن نے بھی اسی طرح اپنے سفرنامے میں بار بار ابن جبیر کا ذکر کیا ہے جس نے سات سو سال پہلے حج کا سفرنامہ لکھا تھا۔
خاص بات یہ ہے کہ ابن جبیر کا سفرنامہ سات صدیوں تک محض عربی مخطوطہ ہی تھا۔ اسے انگریز مستشرق ولیم رائٹ نے پہلی بار 1852 میں چھاپا۔ برٹن کو عربی آتی تھی۔ اس نے وہ پڑھا اور اگلے ہی سال حج کرنے نکل کھڑا ہوا۔
سفرنامہ ابن جبیر کے عربی مخطوطے کی صرف ایک کاپی بچ سکی ہے جو ہالینڈ کے ایک کتب خانے میں محفوظ ہے۔ میں نے اس کی پی ڈی ایف حاصل کرلی ہے۔
برٹن نے ایک اور سفرنامے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس سے چار عشرے پہلے سوئس مہم جو لوئیس جان برکھارٹ نے بھی عربی سیکھ کر اور مسلمانوں والا نام رکھ کر حج کیا تھا۔ اس کی زندگی زیادہ ہنگامہ خیز تھی جس میں وہ برسوں عرب ملکوں میں رہا اور مفلسوں والی زندگی گزاری۔ اس نے کئی سفرنامے لکھے جن میں سے ٹریولز ان اریبیا اور ٹریولز ان سیریا اینڈ ہولی لینڈ ہمارے مطلب کے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ابن جبیر اور برکھارٹ کے سفرناموں کے اردو ترجمے ہوچکے ہیں۔
اگرچہ ابن جبیر کا عربی سفرنامہ بھی انگریزوں نے چھاپا لیکن انگریزی میں پہلا ترجمہ پورے سو سال بعد 1952 میں شائع ہوا۔ اس سفرنامے کے دو اردو ترجمے میرے علم میں ہیں۔ ایک حافظ احمد علی خان شوق نے کیا جو 1900 میں چھپا۔ دوسرا محمد خالد اختر نے کیا جو کتابی صورت میں شائع ہونے سے قبل حنیف رامے کے پرچے نصرت میں قسط وار چھپا۔ خالد صاحب کو ترجمہ کرنے کے بعد علم ہوا کہ یہ کام پہلے ہوچکا تھا۔ بہرحال دونوں میں زمان و مکان ہی نہیں، زبان و بیان کا فرق بھی موجود ہے۔
برکھارٹ کے سفرنامے کا ترجمہ مولوی علی شبیر نے کیا تھا جس پر سنہ اشاعت 1344 درج ہے۔ گویا یہ 1925 میں چھپا۔
رچرڈ برٹن کا سفرنامہ پہلی بار 1855 میں تین حصوں میں چھپا۔ میرے پاس پہلے دو حصے ہیں۔ تیسرا حصہ نایاب ہے جو برٹش لائبریری تک میں نہیں۔ پہلا ایڈیشن ایسا ہاتھوں ہاتھ نکلا کہ دو حصوں میں دوسرا ایڈیشن ایک ڈیڑھ سال بعد چھاپنا پڑگیا۔
میں گوگل ڈرائیو کے اس فولڈر کا لنک شئیر کررہا ہوں جس میں ابن جبیر کے سفرنامے کا اصل مخطوطہ، اس کا 1852 میں عربی میں چھپا ہوا پہلا ایڈیشن، اس کا 1952 میں چھپا ہوا پہلا انگریزی ایڈیشن، اس کے دونوں اردو ترجمے، برٹن کے سفرنامے کے دوسرے ایڈیشن کی دونوں جلدیں، برکھارٹ کے انگریزی میں دو سفرناموں کے پہلے ایڈیشن اور اس کا اردو ترجمہ موجود ہے۔
بونس کے طور پر محمد اسد کی آپ بیتی بندہ صحرائی بھی شامل کردی ہے جن کی ساری زندگی ہی سفر میں گزری۔ وہ ایک یورپی یہودی تھے جنھوں نے نوجوانی میں اسلام قبول کیا اور زندگی اس کے لیے وقف کردی۔ پاکستان بننے کے بعد اس کے شہری بنے اور سفارتی خدمات بھی انجام دیں۔
ابن جبیر، برکھارٹ، رچرڈ برٹن، محمد اسد، کیا اس فہرست میں کسی اور کو شامل ہونا چاہیے؟

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: