مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دعا زہرا کیس کا نیا رُخ||حیدر جاوید سید

یہ رابطہ تھا تو اس کی وجہ کیا تھی وہ گاڑی جس میں دعا زہرا کراچی سے لاہور آئی کس کی تھی یا کس نے بک کروائی تھی۔ بک کس نے کرائی کوئی خاتون تھی یا مرد؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگہی کے ذرائع وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ گفتگو اور سماعتوں سے شروع ہوا یہ سلسلہ جدید سوشل میڈیا تک آن پہنچا ہے۔ تحقیق کے میدان میں جمود نہیں اس لئے نئے نئے در وا ہوں گے۔ نئے میدان، نئی ایجادات، کیا فیکس مشین بارے سوچا تھا، ویڈیو لنک کالز اور بہت کچھ۔

مثلاً الٹرا سائونڈ، پیدائش سے قبل جنس بارے معلومات، زندگی یہی ہے آگے بڑھتی ہے۔ آگے بڑھتے رہنے میں ہی خیر ہے۔ انسانیت اور اپنے اپنے عصر کا بھلا بھی۔

کسی جدید ایجاد کو بندر کے ہاتھ آئے استرے کی طرح استعمال کریں یا آگہی کے لئے اس میں بھی ہر کس و ناکس کاملاً آزاد ہے۔ میں لکھے ہوئے پر تخلیق انسان کا قائل نہیں بلکہ میری رائے میں تخلیق محض اظہار کا ذریعہ ہے باقی کام تخلیق نے کرنے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ ان ایجادات کا ہے جو انسان انسانوں کے لئے تخلیق کرتے ہیں۔ مثلاً آپ ایٹمی توانائی سے زندگی حاصل کرسکتے ہیں اور کرہ ارض کو جہنم بھی بناسکتے ہیں۔

ایٹم بم بنائیں یا روشنی پھیلائیں دونوں کام آپ کے بس میں ہیں۔ سوشل میڈیا آگہی کا ذریعہ ہے۔ آپ کی مرضی ہے آگہی کے نور سے دامن، دل و دماغ بھریں یا وہ کام جو بندر نے ہاتھ آئے استرے کے بعد کیا تھا۔

تمہید طویل ہوگئی معذرت قبول کیجئے۔ اس تمہید کی وجہ دعا زہرا کیس کے اب تک کے مرحلے ہیں۔ تازہ مرحلہ یہ ہے کہ کراچی میں 10سینئر طبی ماہرین پر مشتمل بورڈ نے دعا زہرا کی عمر کا تعین کردیا ہے۔

کچھ لوگ اس پر بھی ٹھٹھہ اڑاتے دیکھائی دیئے اسی لئے بندر کے ہاتھ لگے استرے والی مثال یاد آگئی تھی ۔ جدید طبی سائنس میں عمر کے تعین کے لئے جتنے مستند ذرائع ہیں 10رکنی بورڈ نے انہیں سامنے رکھ کر فیصلہ دیا۔ نئی میڈیکل رپورٹ کے مطابق دعا زہرا کی عمر 15سے 16سال ہے۔ جانچنے کے مختلف طریقوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔ دعا کے والد 14سال کہہ رہے تھے۔ ان کا موقف دستاویزات کی بنیاد پر تھا۔ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ تحقیق کی بنیاد پر ہے ان دونوں کے سامنے رکھئے اور طبی ماہرین سے دریافت کرلیجئے۔

وہ خود یہ کہتے ہیں عمر کے تعین کا طبی طریقہ کار خدائی ہرگز نہیں انسانی تحقیق ہے زیرزبر کا فرق ہوسکتا ہے۔ یوں ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دعا زہرا کی عمر 14سے 16سال کے درمیان ہے۔ نئی میڈیکل رپورٹ اس کی تصدیق کرتی ہے۔

اب پہلا قانونی نکتہ یہ ہے کہ 14سے 16سال کے درمیان کی بچی کا نکاح سندھ اور پنجاب میں شادی کے لئے لڑکی کی مقرر کی گئی عمر 18اور 16سال کے قانون پر پورا نہیں اترتی۔ یعنی دونوں صوبوں کے قوانین ہی ہمیں ان قوانین سے متعارف کرواتے ہیں جن کے مطابق یہ اغوا، کم عمری میں جنسی تعلق قائم کرنا اور دیگر دفعات کے تحت سنگین جرم ہے۔

اس موضوع پر مزید بات کرنے سے قبل دو تین نکات عرض کردیتا ہوں آپ انہیں میری وضاحت اور رائے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ دعازہرا کے معاملے کو ایک ساعت کے لئے بھی برادری یا مسلک کی آنکھ سے دیکھا نہ سمجھنے کی کوشش کی۔

یہ ایک سماجی المیہ ہے۔ اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ ثانیاً کم از کم میں اس کیس میں تین افراد کو اہم کردار سمجھتا ہوں۔ گو مجھے یقین نہیں ہے کہ کبھی ان تین افراد سے وضاحت طلب کی جائے گی یا شامل تفتیش کیا جائے گا۔ ان میں پہلا میڈیکل رپورٹ بنانے والا ڈاکٹر جس نے پہلی میڈیکل رپورٹ بنائی تھی ، دوسرا دعا زہرا کے وکیل اور والدین کا موقف سنے بغیر محض میڈیکل بورڈ اور دعا کے بیان پر کم عمر قانونی طور پر نابالغ بچی کو شوہر ظہیر کے ساتھ جانے کی اجازت دینے والا۔

تیسرا کردار ایک خودساختہ صحافی جوکہ اصل میں یوٹیوبر ہے زنیرہ ماہم ہے ،

ابتدا سے اب تک دعاکیس کے معاملے کو بطور اخبار نویس دیکھ کر تین مزید سوال اور کردار بھی ذہن میں آئے۔ ایک اس مقدمہ کا تفتیشی جوکہ کراچی پولیس کاافسر ہے دوسرا سندھ کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جس نے پہلی جعلی میڈیکل رپورٹ کو حرف آخر قرار دیتے ہوئے گزشتہ سماعت (جس میں دعا کو ظہیر کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی تھی) کے دوران عدالت میں کہا تھا سندھ کی حدود میں جرم ہی نہیں ہوا،

کیا دعا زہرا تیسرے یا چوتھے آسمان سے لاہور میں اتری تھی؟

تیسرا کردار وہ ٹیکسی ڈرائیور ہے جس کی گاڑی میں بقول دعا کے وہ کراچی سے لاہور آئی۔

ایک آزاد بااختیار تفتیشی ٹیم اصل حقائق سامنے لاسکتی ہے۔ اور یہ اسی طور ممکن ہے کہ اس کیس میں سامنے موجود جو مشکوک کردار ہیں انہیں شامل تفتیش کیا جائے خصوصاً یوٹیوبر زنیرہ ماہم کو ، کراچی کا تفتیشی پولیس افسر،پہلی میڈیکل رپورٹ جاری کرنے والا ڈاکٹر۔ اس کے بعد یہ طے اور تحقیق کرنا تفتیشی ٹیم کا فرض ہے کہ کیا زنیرہ ماہم دعا زہرا سے اس کے لاپتہ ہونے سے قبل بھی رابطے میں تھی۔

یہ رابطہ تھا تو اس کی وجہ کیا تھی وہ گاڑی جس میں دعا زہرا کراچی سے لاہور آئی کس کی تھی یا کس نے بک کروائی تھی۔ بک کس نے کرائی کوئی خاتون تھی یا مرد؟

ایک سوال اور ہے پچھلی سماعت کے بعد جب ہائیکورٹ نے دعا زہرا کو ظہیر کے ساتھ جانے کی اجازت دی تھی اس وقت عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ مقدمہ جہاں زیرسماعت ہے انہیں وہاں پیش کیا جائے۔ متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کی بجائے دعا زہرا اور ظہیر کو ہوائی جہاز سے اگلی صبح کراچی سے لاہور کس نے بھجوایا

کیونکہ اس سے اگلے دن تو متعلقہ عدالت میں پیشی تھی۔ کیا پولیس اس سے لاعلم تھی یا سہولت کار بنی؟

یوٹیوبر زنیرہ ماہر کبھی بھی صحافی نہیں رہیں ایک یوٹیوبر ہے اور ایک یوٹیوبر محض اخبار کی خبر پر مہم جوئی نہیں کرتا معاملہ کچھ اور لگتا ہے ۔

مکرر عرض ہے دعا زہرا کا معاملہ خالص سماجی مسئلہ ہے اس کے والد نے استقامت کے ساتھ جدوجہد کی، گالیاں کھائیں، فضول گفتگو اور طعنے سنے وہ سب کچھ بھی جو عام حالات میں کوئی بھی نہیں سن سکتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ عائلی قوانین بالغ جوڑے کی مدد کرتے ہیں دونوں میں سے کسی ایک کا نابالغ ہونا قانون کی خلاف ورزی ہوگی اس کیس میں صرف قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی بلکہ معلوم و نامعلوم افراد کی مدد سے جوتوں سمیت قانون اور سماج کی آنکھوں میں گھسنے کی کوشش ہوئی۔

تیسری بات یہ ہے کہ یہ عقیدوں، ذات برادریوں او دوسری تقسیم سے بٹا معاشرہ ہے۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ معاملہ اس کے عقیدے اور ذات برادری کے حساب سے ہو۔ اس معاشرے میں اگر دعا زہرا کے باپ نے بھی یہی خواہش کی تو کون سا جرم ہوگیا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا آزادی کی بلکہ ہر آزادی کی حدود ہوتی ہیں۔ حدود پامال ہوں تو مادر پدر آزادی کہلاتی ہے۔

دعا زہرا کے معاملے میں سماجی پہلو اور مسائل سامنے رکھنا ہوں گے۔ قانون پر قانون کی طرح ہی عمل کی ضرورت ہے۔ یہ شیعہ سنی مسئلہ ہے، سندھی پنجابی نہ مہاجر مقامی، سیدھا سیدھا قانون کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔

ماہرین کی جاری کردہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر یہ اب اغوا کا کیس بن گیا ہے۔ کم عمری میں جنسی تعلق قائم کرنا الگ سے جرم ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سندھ حکومت یا پھر عدالت ایک جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے جو سارے پہلو سامنے رکھ کر تحقیقات کرے اور ہر مشتبہ کردار کو تفتیش کے دائرے میں لائے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: