مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اساتذہ کرام کی یاد میں ایک کالم |||حیدر جاوید سید

ہم استاد مکرم مسگی صاحب کی باتیں کررہے تھے۔ میں ان کی مہربانیوں کا ہمیشہ شکر گزار رہا اور آخری سانس تک رہوں گا۔ ان کی مہربانی اور کرم فرمائی ہی تھی کہ ہم جیسے نکموں نے زندگی اور اس سے بندھے معاملات کو دوسروں سے یکسر مختلف انداز میں دیکھا سمجھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنددن ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر آقائے حافظ شیرازیؒ کے ایک شعر کا ترجمہ پوسٹ کیا تو ایک عزیز نے اس شعر کو خلاف مذہب و عقیدہ قرار دے دیا۔

حافظ شیرازیؒ کہتے ہیں

لیجئے پھر یادوں اور مطالعے کی دستک ہوئی ہے۔ مرحوم و مغفور استاد مسگی کلاس کو اسلامیات پڑھاتے پڑھاتے تاریخ اور تصوف کے میدانوں میں اتر گئے۔

ارشاد ہوا، سندھ نے ہر مسافر کو قبول کیا اور مسافر نے اپنے ظرف کے حساب سے تکریم پائی۔

یہ بھی ارشاد ہوا، "تاریخ لشکریوں کے ساتھ آنے والے خبریوں کے روزنامچوں سے مرتب ہوتی ہے۔ درباری تاریخ نویسوں کی واہ واہ کاری کے سودے ہیں یا پھر سینہ بہ سینہ چلی آنے والی روایات۔ ایک اچھے طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ تاریخ کے اوراق الٹتے وقت تینوں پہلو سامنے رکھے۔

اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اپنی رائے بنانے میں آسانی رہے گی”۔ مسگی صاحب میں آج بھی کہہ سکتا ہوں انسانِ کامل تھے۔ اپنی تنخواہ کا نصف حصہ وہ سکول کے قریب اسٹیشنری کی ایک دکان کے مالک کے پاس جمع کروادیتے تھے۔

دکاندار کو حکم تھا کوئی طالب علم اگر ان کا نام لے کر کتاب، کاپی، پنسل، قلم لے تو خاموشی سے اس کی ضرورت پوری کردی جائے۔

یہ حکم بھی تھا کہ استاد کا نام بتاکر چیز طلب کرنے والے طالب علم سے اس کا نام ہرگز دریافت نہ کیا جائے۔ ان ایک بھلی عادت اور تھی وہ یہ کہ روزانہ دوپہر کا کھانا ساتھ لاتے اور یہ تین چار لوگوں کی ضرورت پوری کردیتا تھا۔

ان کے دسترخوان سے رزق چننے کے لئے جس دن ہماری باری آتی تو خوب محفل جمتی تھی۔ دسترخوان پر جمی ایک ایسی ہی نشست میں ان سے سوال کیا، استاد مکرم، آپ نے رزاق بھائی (دکان کے مالک) کو یہ کیوں کہہ رکھا ہے کہ جو بچہ میرا نام لے کر کاپی پنسل ، قلم اور کتاب مانگے اس سے نام نہ پوچھا جائے؟

مسکراتے ہوئے فرمانے لگے سید زادے "حق یہی ہے کہ عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ بچے عزت نفس کے معاملے میں بڑوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں” ساعت بھر کیلئے رکے اور پھر گویا ہوئے

” مجھے مکمل یقین ہے کہ ضرورت مند بچے کے علاوہ کوئی بھی میرا نام لے کر کوئی چیز نہیں لے گا” ،

اپنی تربیت اور اس وقت کے سماجی رویوں پر ان کا کامل یقین مثالی تھا۔ مسگی صاحب سندھ کے صوفی شعراء کے عاشق صادق تھے۔

سچلؒ، سامی اور شاہ، انہیں ازبر تھے۔ ہم سادہ لفظوں میں اگر کہیں تو وہ سندھی زبان کے صوفی شعراء کے حافظ تھے۔ ایک بار انہوں نے شاہ لطیف بھٹائیؒ کا ایک شعر سنایا پھر اس کی تشریح بھی کی۔

شعر تھا ’’سرمدی نغمہ گانے کے لئے اپنے خون سے غسل کرنا پڑتا ہے‘‘۔

مسگی صاحب نے فرمایا

’’سرمدی نغمہ، سچ بولنا ہے۔ سچ بولنے کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ خصوصاً اس معاشرے میں جہاں نیم خواندہ شخص محض مسجد کی پیش نمازی کی وجہ سے مذہبی رہنما بن جائے یا کوئی شخص اپنی امارت کی وجہ سے عزت و تکریم کا حقدار، ان دونوں اور ان کے متاثرین کے سامنے عصری شعور کے ساتھ اپنی بات کہنا سرمدی نغمہ ہے‘‘۔

ہم اور آپ سرمدی نغمہ کی اس تفسیر کو اپنے آج کے ماحول ، سماجی رویوں اور دوسرے معاملات کی روشنی میں دیکھیں تو سمجھ لیں گے کہ کتنا مشکل کام ہے سرمدی نغمہ الاپنا،

ہر شخص اپنی بات کو درست بلکہ سچ کے طور پر پیش کرتا ہے دوسروں کی بات غلط، دوسروں کی عیب جوئی ایک طرح کی لیاقت ہے، بھائیوں کاگوشت کھانا جنہیں مرغوب ہو وہ بھلا سچ سننا ہی کیوں چاہیں گے۔ یہاں کوئی نہیں سنتا۔

مجھے یاد ہے جب مسگی صاحب ہمارے معلم تھے انکا ایک صاحبزادہ فوج میں میجر تھا اور دوسرا ڈاکٹر۔ ڈاکٹر صاحب اکثر اپنے بابا کو ملنے سکول پہنچ جاتے تھے آتے ہی قدم چھوتے۔ دوسرے اساتذہ کو بھی گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر آداب کہتے۔

ایک دو بار ان کے میجر صاحبزادے بھی وردی میں سکول آئے۔ سینکڑوں طلبا کے سامنے انہوں نے اپنے والد کے قدموں پر ہاتھ رکھا۔ کیا شاندار تربیت تھی۔

استاد مکرم فرمایا کرتے تھے، بڑوں کا ادب، ہم جولیوں سے مروت اور چھوٹوں سے اخلاق بھرا برتائو ہی آدمی کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔

میں ان چند خوش قسمت طلبا میں شامل تھا جن پر وہ ہمیشہ مہربان رہتے۔ ایک شفیق باپ اور معلم کے طور پر۔ ہفتہ میں ایک دن وہ اپنے پسندیدہ طلبا کے لئے سکول کے اوقات کے بعد گھنٹہ بھر کی کلاس کا اہتمام کرتے ( وہ اسے کچہری کا نام دیتے تھے )۔ طلبا کو سب سے زیادہ اسی دن کا انتظار رہتا تھا۔

سوال کرنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ کوئی بھی سوال پوچھا جاسکتا تھا۔ کبھی وہ ایک سوال اپنے طلباء کے سامنے رکھ کر کہتے پانچ منٹ ہیں بچوں تمہارے پاس سوچنے کے لئے پھر باری باری جواب دینا۔

جواب سن چکتے تو نیا مرحلہ آتا جن چند شاگردوں کے جواب انہیں پسند آتے ان سے کہتے اپنے اپنے جواب کی روشنی میں اب مکالمہ کرو۔

بحث کا یہ شاندار مرحلہ دلچسپ ہوتا۔ وہ غلط بات یا تلفظ کی تصحیح کرتے۔ باقی وقت داد دیتے رہتے۔

مجھ سے نکمے طالب علم پر ان کی مہربانی کی وجہ ایک دوسرے معلم سید عباس نقوی کا بھانجا ہونے سے زیادہ مطالعے میں میری دلچسپی تھی۔ بسا اوقات وہ میرے کسی سوال یا جواب کے بعد یہ ضرور کہتے سید زاے،

"شاندار انسان بنو گے میں ہمیشہ دعاگو رہوں گا بس ایک بات یاد رکھنا، اظہار خیال کرتے وقت سننے پڑھنے والوں کے ظرف کا ضرور خیال رکھنا۔

ظرف کا برتن جلدی چھلکنے لگتا ہے "۔

ساڑھے چھ دہائیوں کی مسافت طے کرچکے مسافر کو قدم قدم پر ان کی ہدایت یاد آتی رہتی ہے۔ کبھی بھول جائوں تو لوگ "یاد” کروادیتے ہیں۔

ہماری تعلیم و تربیت کی حقیقی ذمہ داری اور معلمہ ہماری آپا سیدہ فیروزہ خاتونؒ کہا کرتی تھیں

’’صاحبزادے یہ جو زندگی ہے یہ کسی کی عطا ہرگز نہیں۔ انسان کے وجود میں آنے کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ زندگی کا اصل یہ ہے کہ انسان اپنے ہونے کا ثبوت دے اور یہ حصول علم کے بغیر ممکن نہیں‘‘۔

ہم استاد مکرم مسگی صاحب کی باتیں کررہے تھے۔ میں ان کی مہربانیوں کا ہمیشہ شکر گزار رہا اور آخری سانس تک رہوں گا۔ ان کی مہربانی اور کرم فرمائی ہی تھی کہ ہم جیسے نکموں نے زندگی اور اس سے بندھے معاملات کو دوسروں سے یکسر مختلف انداز میں دیکھا سمجھا۔

سچلؒ، سامی اور شاہ، سے ہمارے تعارف کا ذریعہ وہی بنے۔ اسلامیات پڑھاتے کتاب سے تھے لیکن تشریح اپنی فہم سے کرتے۔ یہی معاملہ ایک دوسرے معلم سید عباس نقوی صاحب کا تھا۔ تاریخ کے سارے پہلو شاگردوں پر آشکار کرتے۔

کبھی کبھی اپنی لائریری میں کتابوں کے اوراق الٹتے پڑھتے مجھے تین شخصیات بہت یاد آتی ہیں۔ آپا جان سیدہ فیروزہ خاتونؒ، استاد مسگی صاحبؒ اور استاد سید عباس نقویؒ۔ یہ جو حرف جوڑ کر لکھت بُنتا ہوں، قلم مزدوری کرتاہوں ان کی تعلیم و تربیت کا صدقہ ہے۔

اپنے دیگر اساتذہ کو بھی کبھی نہیں بھول پایا۔ مرحوم فضل ادیب صاحب، حمید اختر مرحوم، سید عالی رضوی مرحوم، بلھے شاہ کے عاشق استاد مکرم اکرم شیخ اللہ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ شادوآباد رکھے۔

کیا کمال کی بات ارشاد کی ایک دن کلاس روم میں جناب سید عباس نقوی نے ، فرمایا،

’’عزیزان من، مطالعہ انسان میں برادشت اور لچک پیدا کرتا ہے یعنی ” اس ہٹ دھرمی سے کہ میں ہی درست ہوں ، سے محفوظ رکھتا ہے‘‘۔

چراغ رُخ زیبا لے کر تلاش کیجئے اب ایسے روشن فکر اساتذہ نہیں ملتے۔ کئی برس ہوتے ہیں چند طلباء و طالبات کے ساتھ ایک نشست میں اساتذہ کا ذکر کیا۔

ایک طالب علم نے کہا سر اب ویسے اساتذہ ہیں بھی تو نہیں۔ عرض کیا، میرے عزیز !

سچ یہ ہے کہ ویسے شاگرد بھی نہیں ہیں جو اساتذہ کی جوتیاں سر پر رکھ کر چلنے میں عزت جانتے ہوں اس اوئے توئے سے بنے ماحول میں استاد ٹیوٹر بن گئے اور شاگرد اے ٹی ایم۔

اس سے زیادہ کیا عرض کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: