مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ پیار، محبت، عشق، جنوں||ڈاکٹر مجاہد مرزا

اس چھوٹے سے مضمون میں میں آپ کو عشق کے رموز سمجھانے کی سعی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں خود ان رموز پر کبھی کاربند نہیں ہو پایا ہوں۔ البتہ یہ ضرور بتاوں گا کہ میں ایک مذہبی گھرانے کا اچھا بچہ تھا۔ اتنا اچھا کہ جب ایک شناسا نے میرے سامنے " میری چیچی دا چھلا ماہی لاہ لیا" گنگنایا تو میں نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا کہ میرے سامنے گندی باتیں مت کرے، تب میں نویں جماعت میں تھا۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے دس گیارہ سال پہلے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی جو فکشن ہاوس لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ عنوان تھا،” محبت ۔۔۔۔ تصور اور حقیقت” جس میں میں نے پیار ، محبت ، عشق، جنوں میں فرق بیان کیا تھا۔ انگریزی زبان میں جس جذبے کو Love کہا جاتا ہے اسے میں نے تحقیق کے بعد عشق جانا۔ پیار کو Liking, جسے ہم عرف عام میں محبت سمجھتے ہیں Infatuation اور جنوں Passion کہلاتے ہیں
یہ کتاب میں نے یونہی نہیں لکھی تھی بلکہ عشق سے متعلق میں نے جو تھیوری وضع کی تھی اس کا بیان کرکے میں لڑکیوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ لڑکیاں حقیقت گوئی سے راغب نہیں ہوتیں بلکہ چرب زبانی ، بلاوجہ ستائش اور دروغ گوئی کرنے والے کی طرف زیادہ کشش محسوس کرتی ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں نے لڑکی پھانسنے کی اصطلاح وضع کی ہے۔ مجھے ایک سیانی لڑکی نے مشورہ دیا کہ جو باتیں آپ کرتے ہیں وہ ثبوتوں کے ساتھ ایک کتاب کی شکل میں لکھ دیں۔
میں بھی اوروں کی طرح یہی سمجھتا رہا تھا کہ میں نے کئی عشق کیے ہیں ویسے مجھے لگتا تھا کہ میں ہر اس راہ چلتی لڑکی پر عاشق ہو جاتا ہوں جو جزوی یا پوری، اگرچہ پوری کبھی کوئی اچھی نہیں لگی، مجھے اچھی لگ جائے۔ مگر تحقیق کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ مجھے کبھی عشق نہیں ہوا۔ یا تو پیار ہوا یا محبت۔ پیار ہمدردی اور توجہ کی خواستگاری، محبت تکمیل خواہش کا رستہ۔
اس چھوٹے سے مضمون میں میں آپ کو عشق کے رموز سمجھانے کی سعی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں خود ان رموز پر کبھی کاربند نہیں ہو پایا ہوں۔ البتہ یہ ضرور بتاوں گا کہ میں ایک مذہبی گھرانے کا اچھا بچہ تھا۔ اتنا اچھا کہ جب ایک شناسا نے میرے سامنے ” میری چیچی دا چھلا ماہی لاہ لیا” گنگنایا تو میں نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا کہ میرے سامنے گندی باتیں مت کرے، تب میں نویں جماعت میں تھا۔
دسویں تک لواطت اور مباشرت کو ایک سا عمل سمجھتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم ہوتے ہوئے ایک لڑکی سے پہلا پیار ہوا۔ ایک رات اندھیرے میں ڈرے ڈرے اس کے ساتھ لیٹے جب اس کی شلوار کو نم کرتی اس کی رطوبت میرے ہاتھ کو لگی تھی تو میں نے کراہت کے ساتھ تیزی سے ہاتھ کھینچ کر پوچھا تھا،” آخ، یہ کیا ہے؟” اس نے کہا تھا،” ڈاکٹر بنو گے تو معلوم ہو جائے گا” اندھیرے میں اس کی آواز میں خجالت اور میری لاعلمی پر اس کا تحیر محسوس کیا جا سکتا تھا۔
زمانہ طالبعلمی میں جنس کے جو دو تجربات ہوئے وہ کریہہ اور انسان کی توقیر کی پامالی کے حوالے سے پریشان کن رہے۔
پہلے پیار والی بیاہی گئی تو ردعمل میں اپنے خیال کے مطابق ایک اور سے عشق کر لیا۔ پاکستان میں بن بیاہ کے ساتھ رہنا ناممکن تھا۔ بیاہ پر راضی ہو کر بھی غیر رضامند رہا۔ بہت پھڑپھڑایا مگر نہ نکل پایا۔ بچے ہو گئے ۔پھر بیاہ کے دس برس بعد ایک اور شہر میں ایک رات میں انتہائی نشے کے عالم میں دوست کے پاس پہنچی کسبی سے ملوث ہو گیا۔ اس خوف سے کہ کہیں مجھے کوئی جنسی مرض نہ گھیر لے اور میں اسے اپنی بیوی کو منتقل نہ کر دوں، بیوی کو یہ واقعہ بتا دیا۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس سے محبت سہی مگر اسے مجھ سے عشق ہے لیکن سچ بتا دینے کے بعد اس کا نام نہاد عشق بھی بھک سے اڑ گیا۔
معروف گلوکارہ میڈونا کا کہنا تھا کہ وہ چالیس برس کی عمر تک عیش کوشی سے گریزاں رہی تھی، پھر اس نے یہ راہ اپنا لی۔ میں چالیس برس کی عمر میں روس پہنچا تھا۔ پہلے ہی روز سر راہ موسیقی پر تھرکتی لڑکی کو اپنی جان میں اپنی جانب راغب کرکے جائے قیام پہ مدعو کر لیا تھا۔ وہ یونیورسٹی ہوسٹل پہنچ گئی تھی جہاں میں طالبعلم دوست کے پاس ٹھہرا ہوا تھا پھر جاتے جاتے وہ میرے دوست کی نوجوان روسی اہلیہ کو بتاتی گئی تھی کہ یہ میری زندگی میں آنے والا انتالیسواں شخص تھا۔ میری جان نکل گئی تھی۔ مگر اگر خدانخواستہ ایڈز ہونا بھی تھی تو اس کے لیے دس برس انتظار کرنا تھا۔
اب میں پھر سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔ میرا دوست کہتا کہ کسی لڑکی سے بات کریں ڈاکٹر صاحب۔ میں کہتا کیسے کروں، لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اس نے کہا تھا کہ کیا وہ اس کے رشتے دار ہیں، دیکھتے ہیں تو کیا ہوا۔ دس سے بات کریں گے، نو انکار کر دیں گی مگر دسویں آپ سے دوستی پر رضامند ہو ہی جائے گی۔
پھر استراحت کی غرض سے بحیرہ اسود کے ساحل پر چلا گیا تھا۔ تب روس میں سگریٹ ماچس کا کال تھا۔ سمندر کے ساحل کے نزدیک پانی میں ڈبکیاں لگانے کے بعد پھٹے پر لیٹا چار پانچ پھٹے دور ایک پھٹے پر پیٹ کے بل لیٹی لڑکی کو دیکھ رہا تھا، جس کے کولہوں سے چپکا چمکدار نارنجی ساٹن کا زیر جامہ آنکھوں کو بھلا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ لڑکی کی اپنی جلد بہت سفید تھی۔ماچس مانگنے اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تھی ہی سفید روس یعنی بیلاروس کے شہر گومل کی ایک نرس۔ بس اس نے تین دن مجھے آگ لگائے رکھی۔
وہیں استراحت کے دوران بیس برس کی ایک لڑکی سے شناسائی ہوئی جو ماسکو آنے کے بعد محبت میں ڈھل گئی۔ میں سمجھا عشق ہو گیا۔ جب وہ چھوڑ گئی تو بوتل کے ساتھ پینگیں بڑھانے لگا۔ پھر فلم سٹار انجمن کے جسم و جثہ کی ایک حسین خاتون سے دوستی کر بیٹھا۔ اس کے کثیر جسمانی تقاضوں کے باعث اس سے جان چھڑائی۔ پھر اپنی ہم عمر یعنی دو برس چھوٹی اس بردبار عورت سے تعلق ہوا جو ربع صدی سے زیادہ میری اہلیہ رہی اور دوسری عورتوں سے متعلق اس عمر میں بھی انتہائی حاسد۔ میں نے کئی بار غچے دیے، اس نے کئی بار معاف کیا۔ مگر 2003 میں جب میں 52 برس کا تھا کہ ماسکو میں موجود 18 برس کی پاکستانی لڑکی کو مجھ سے پیار ہو گیا۔ مجھے آج بھی اس سے پیار محسوس ہوتا ہے۔ زندگی میں آخری ایک اور آئی مگر اس سے مجھے عشق نہیں ہو سکا البتہ پیاری لگتی تھی جو اب میرے تین بچوں کی وحشی مزاج ماں ہے۔
56 سال کی عمر میں 37 برس کے بعد میں ایک بار پھر مذہب کی جانب راغب ہوا۔ اب بس آنکھیں سینکتا ہوں اور جنسی تخئیل یعنی فینٹیسی پر قناعت کرتا ہوں۔
ایسا بھی نہیں کہ کچھ لڑکیاں جو دوست بنیں وہ ساری بستر تک بھی آئی ہوں بلکہ کئی نے تو پیشتر اس کے کہ میں اس ضمن میں پیشرفت کرتا باور کرا دیا کہ بچ کے رہنا رے بابا بچ کے رہنا رے۔ مثال کے طور پر ایک کم بخت نے کہا تھا،” تم میری پسند کے نہیں ہو” میں نے سٹپٹا کر پوچھا تھا کہ کیا میں نے تمہیں کچھ کہا ہے؟ جواب میں وہ مسکراتی رہی اور میں اس کے اپارٹمنٹ میں اس کی پیش کردہ چائے پیتا رہا۔ ایک اور میرے ساتھ مٹر گشتی کرتے ہوئے گویا ہوئی تھی،” تم چاہتے ہو لڑکی جھٹ سے بستر پر پہنچ جائے” جبکہ میں نے ایسا نہ کچھ کہا نہ کیا تھا۔ میں نے غصے میں خبیث مسکراہٹ چہرے پر لا کر کہا تھا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے کیونکہ میں جان گیا تھا کہ وہ بھاگنے کو پر تول رہی تھی۔
تو عشق کیا ہے؟ ایسا تعلق جس میں باہمی ہم آہنگی اور باہمی ربط کے ساتھ مرد اور عورت اپنی مشترکہ زندگی اور اپنے بچوں کے مستقبل سے متعلق منصوبہ بندی کرکے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے جتن کرتے ہیں۔ اس طرح مجھے عشق نہیں ہو سکا یا تو پیار ہوا یا محبت۔ باقی محبت سے متعلق بنائے گئے قصے جنوں یعنی دیوانگی کے ہیں ۔ جنوں کسی مقصد کے لیے ہو تو مثبت ہوتا ہے اور عورت کے لیے ہو تو دیوانہ پن۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: