مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مبشر صاحب، اب تک آپ کو پتا چل چکا ہوگا کہ میری بیوی نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔”
آصف بھائی کے یہ الفاظ سن کر مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں گاڑی چلارہا تھا۔ کرسمس کی وجہ سے سڑک سنسان تھی ورنہ گاڑی لہرانے سے حادثہ ہوسکتا تھا۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آصف بھائی؟ نہیں، مجھے نہیں پتا تھا۔ افسوس۔ ایسا کیوں ہوا” میں بوکھلا گیا تھا۔
وہ آصف بھائی کا آخری دورہ امریکا تھا۔ کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے نیویارک آئے تھے۔ پھر بیٹی سے ملنے گئے اور وہاں سے مجھے فون کیا،
"مبشر صاحب، میں بالٹی مور آیا تھا لیکن بیٹی خود سنگاپور جارہی ہے۔ میری واپسی تین دن بعد ہے اس لیے واشنگٹن آرہا ہوں۔ کیا آپ شہناز آپا سے میری ملاقات کروائیں گے؟”
شہناز عزیز وائس آف امریکا کی سینئر براڈکاسٹر ہیں۔ پہلے ریڈیو پاکستان کراچی میں پروگرام کرتی تھیں۔ آصف بھائی لڑکپن کے زمانے سے ریڈیو جاتے تھے اور انھیں جانتے تھے۔
آصف بھائی کی کال آئی تو اس وقت میں دفتر ہی میں تھا۔ شہناز آپا کے پاس جاکر کہا، "آپ آصف فرخی کو جانتی ہیں نا؟”
وہ ایک دم اچھل پڑیں۔ "یا اللہ خیر۔ کیا ہوا اسے؟ کوئی بری خبر مت سنانا۔”
"کچھ نہیں ہوا۔ کچھ نہیں ہوا انھیں۔ وہ امریکا آئے ہوئے ہیں۔” میں نے ان کے ردعمل سے پریشان ہوکر کہا۔
"شکر۔ آج کل اتنی بری بری خبریں آرہی ہیں کہ میں ڈر گئی تھی۔” شہناز آپا نے اطمینان کا سانس لیا۔
آصف بھائی ٹرین سے واشنگٹن آئے۔ اگلے تین دن ہم نے ساتھ گزارے۔ یہ دسمبر 2019 کا آخری ہفتہ تھا۔ وبا کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
میں نے انھیں یونین اسٹیشن سے لیا اور ہوٹل پہنچایا۔ پھر وائس آف امریکا لے گیا اور سب سے تعارف کروایا۔ بیشتر لوگ ان کے نام سے واقف تھے۔ شہناز آپا نے ان کے لیے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا۔ دونوں نے پرانی یادیں تازہ کیں۔
"مجھے کچھ کتابیں دیکھنی ہیں،” آصف بھائی نے فرمائش کی۔
ہم پہلے سیکنڈ اسٹوری بکس گئے جہاں پرانی اور نایاب کتابیں ملتی ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ مجھے نئے فکشن سے دلچسپی ہے۔ وہاں سے ہم نے پولیٹکس اینڈ پروز بک اسٹورکا رخ کیا۔ وہ آصف بھائی کو پسند آیا۔ انھوں نے درجن بھر کتابیں خرید لیں۔
وہیں کاپی شاپ میں بیٹھ کر ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ وہ بتاتے رہے کہ کون کون سی کتابیں لی ہیں۔ پاکستان میں لبرٹی بکس والے امریکا سے بہت سے کتابیں منگواتے ہیں لیکن بہت سی نہیں بھی پہنچتیں۔ آصف بھائی کنٹیمپریری فکشن سے خوب آگاہ رہتے تھے۔
ہوٹل پہنچ کر انھوں نے مجھے اپنا ایک افسانہ سنایا۔
"میں نے بہت عرصے بعد دو افسانے لکھے ہیں۔” انھوں نے بتایا۔
"دنیازاد اور لٹریچر فیسٹول کی مصروفیات نے آپ کو افسانہ نہیں لکھنے دیا،” میں نے کہا۔
"نہیں، یہ بات نہیں۔ شاید زندگی میں کہانی نہیں رہی تھی۔ اب ایک موڑ آیا ہے تو افسانہ نگار کو جاگنا پڑا۔”
میں اس وقت نہیں سمجھا۔ یہ بات آصف بھائی نے اگلے دن کھولی۔
میں کراچی میں آصف بھائی کے گھر جاتا رہتا تھا۔ ڈیفنس میں بڑا سا گھر تھا۔ بیوی اور دو بیٹیاں تھیں جو ایک ایک کرکے بیرون ملک پڑھنے گئیں۔ آصف بھائی نے خود ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ڈاکٹریٹ کیا تھا۔
انھوں نے پہلے یونیسف میں کام کیا لیکن اچھی تنخواہ کے باوجود اس سے بددل تھے۔ حبیب یونیورسٹی میں پڑھانے کا موقع ملا تو بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے وہ آکسفرڈ کی امینہ سید کے ساتھ مل کر کراچی اور پھر اسلام آباد لٹریچر فیسٹول کا آغاز کرچکے تھے۔ اس سے بھی پہلے اجمل کمال کے ساتھ ادبی جریدے آج میں شریک رہے اور پھر اپنا اشاعتی ادارہ شہرزاد قائم کرکے دنیازاد نکالا۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں چھاپیں۔
آصف بھائی کی زندگی پر رشک آتا تھا۔ بڑے ادیب کے بیٹے، ڈاکٹر، مطالعے کے شوقین، ہزاروں کتابوں کا ذاتی کتب خانہ، تمغہ امتیاز حاصل کیا، پیسے کمائے، نام کمایا، دنیا گھومے۔
پھر اچانک سب کچھ کھو گیا۔ آلسفرڈ نے امینہ سید کو ریٹائر کیا اور آصف فرخی سے رابطہ ختم کردیا۔ انھیں اس کا دکھ تھا۔
پھر بیٹیوں کی شادی کے بعد بیوی نے انھیں چھوڑ دیا۔ آصف بھائی نے بتایا کہ وہ مکان بیچ کر بیرون ملک منتقل ہونا چاہتی تھیں۔ آصف بھائی راضی نہیں تھے۔
"میری کراچی میں جاب ہے، دوستوں کا حلقہ ہے، ادبی مصروفیات ہیں۔ میں بیرون ملک کیوں شفٹ ہوجاؤں؟”
ایک دن وہ گھر پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ وہ ان کے لیے نہیں کھلا۔اس انتہائی قدم کا انھیں اندازہ نہیں تھا۔ علیحدگی کے بعد انھیں اپنی کتابیں تک اٹھانے کے لیے منت سماجت کرنا پڑی۔
مکان بیوی کے نام تھا۔ آصف بھائی نے گلستان جوہر میں کرائے کا مکان لیا۔ تنہا رہ گئے۔ صحت پر دھیان دینا چھوڑ دیا۔ پھر عالمی وبا آگئی۔
ایک دن انھوں نے فون کرکے کہا، "مبشر صاحب، میں دنیازاد کا وبا نمبر نکالنا چاہتا ہوں۔ کچھ آئیڈیاز تو دیں۔”
میں نےکراچی میں دنیازاد کے مین بکر نمبر کے لیے کچھ کام کیا تھا۔ کہانیاں بھی لکھی تھیں، پروف بھی پڑھے تھے۔ وبا نمبر کے لیے بھی ہامی بھرلی۔
لیکن پھر ایک دن خبر ملی کہ آصف بھائی کا اچانک انتقال ہوگیا۔ کراچی کے دوست کہتے ہیں کہ وہ وبا کا شکار نہیں ہوئے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے۔ انھیں تنہائی نے مار ڈالا۔
آصف بھائی کے انتقال کو دو سال ہوگئے۔ ان کے انتقال پر میں نے وائس آف امریکا کے لیے مضمون لکھا، دھوکے کھانے والا آدمی۔ بھائی انعام ندیم نے اس تحریر کو اپنی کتاب "اس آدمی کی کمی” میں شامل کیا ہے۔ اس آدمی کی کمی، آصف بھائی کو شاندار عقیدت ہے۔
آصف بھائی انعام ندیم، خدا بخش ابڑو، عطیہ داؤد، مصطفی ارباب، کاشف غائر، افضال احمد سید، تنویر انجم، انورسن رائے، عذرا عباس، شیر شاہ سید، طارق رحمان فضلی، عرفان احمد خان، حمید شاہد، محمود الحسن، عرفان جاوید، ناصر عباس نیر، قاسم یعقوب، ڈاکٹر انوار احمد، امینہ سید، محمد احمد شاہ اور نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی کا حصہ تھے۔ ہر شخص کچھ پڑھ کر، کچھ لکھ کر، کچھ تخلیق کرکے انھیں بتاتا تھا کہ وہ سخن فہم تھے، سخن نواز تھے۔
ہمیں زندگی بھر کے لیے اس آدمی کی ضرورت تھی، جو دوسروں سے دھوکا کھا جاتا تھا۔ لیکن آخر میں وہ ہمیں دھوکا دے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ