مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ ہو کیا رہا ہے؟||ڈاکٹر مجاہد مرزا

یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا واقعی الطاف حسین کی حیثیت کو کم کیے جانے کی سازش ہو رہی ہے؟ کیا الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کے فاروق ستّار، بابر غوری، حماد صدیقی اور دیگراں کو کارکنوں سے پٹوا کر انہیں سبق سکھایا ہے؟ یا الطاف حسین واقعی ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں؟

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل رات جب میرے دوست پلاسٹک سرجن ابرار احمد نے سعودی عرب سے مجھے مہاجر قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے بارے میں کہے گئے انتہائی نامناسب الفاظ کے بارے میں بتایا تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، "کیا دماغ چل گیا ہے؟”۔ پھر اس نے بتایا کہ موصوف نے حسب معمول ٹیلیفون پہ کی جانے والی تقریر میں رونا بھی شروع کر دیا تھا تو میں نے استفسار کیا،”کیوں؟”۔ اس نے جواب میں کہا خود سن لینا اور تجزیہ کرکے رونے کی وجہ بھی خود ہی جان لینا۔ کسی بھی پورٹل نے وہ تقریر رات گئے تک اپ لوڈ نہیں کی تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ ایم کیو ایم کے بپھرے ہوئے کارکنوں نے میڈیا کے تمام اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا اور جب تک ان کی ریکارڈنگ تلف نہیں کر دی یا ضبط نہیں کر لی انہیں جانے نہیں دیا گیا۔ بہرحال تقریر کا ہنگامے تک کا حصہ نشر ہو ہی گیا۔ الطاف حسین کا کیا جاتا ہے کہ کل اس سب کہے کی اور رونے کی بھی نفی کردیں اور میڈیا تو ویسے ہی ان کے زیر عتاب ہے، اسی لیے تو ان کے باقاعدہ دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے سنا کر بھی "ٹکرز” میں یہی لکھتے ہیں،” تقریر کے دوران الطاف حسین کی آواز بھرا گئی”۔
انہوں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی نے مجھے پیسے کمانے کی مشین سمجھ لیا ہے۔ سمجھ نہیں آ سکا کہ وہ کیا کہنا چاہتے تھے کہ وہ پیسہ کما کما کر رابطہ کمیٹی کے اراکین کی جیبیں بھاری کرتے ہیں اور اپنی پارٹی کے اخراجات پورے کرتے ہیں یا پھر وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ رابطہ کمیٹی کے اراکین نے ان کی ذات کی شہرت، اثر ورسوخ اور نجانے ہیبت کا غلط استعمال کرکے کمائی کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔ اس پر چند ایک نعرے لگے یا لوگوں نے سر نیہوڑا لیے لیکن جب انہوں نے واقعی بھرائی ہوئی آواز میں اپنے "شہیدوں” سے متعلق معافی مانگنا شروع کر دی تو بس طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ کارکنوں نے طیش میں آ کر رابطہ کمیٹی کے اراکین کی پٹائی کر دی۔ پھر فاروق ستار صاحب کی آواز سنائی دیتی ہے ،”الطاف بھائی، ہم نے آپ کا دل دکھایا، ساری رابطہ کمیٹی آپ سے معافی کی خواستگار ہے”۔ پھر وہ کسی سے کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں،” مانگ رہے ہیں معافی، بیٹا معافی ہی تو مانگ رہے ہیں”۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا واقعی الطاف حسین کی حیثیت کو کم کیے جانے کی سازش ہو رہی ہے؟ کیا الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کے فاروق ستّار، بابر غوری، حماد صدیقی اور دیگراں کو کارکنوں سے پٹوا کر انہیں سبق سکھایا ہے؟ یا الطاف حسین واقعی ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں؟
اگر قرائن کو دیکھا جائے تو یہ ان کی دو حالیہ تقاریر میں ان تینوں ہی باتوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی تقریر میں انہوں نے ایک تو میڈیا کو یہ کہہ کر کہ "کسی کا سر گھوم گیا اور ٹھوک دیا” ، دھمکی دی تھی، ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر اسے ایم کیو ایم کا مینڈیٹ پسند نہیں ہے تو کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کر دے۔ خاص طور پر ان کی آخری بات پہ بہت زیادہ عوامی ردعمل ہوا تو انہوں نے بجائے معذرت کرنے یا معافی طلب کرنے کے سرے سے انکار کر دیا کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا تھا۔ میڈیا نے بھی چونکہ چنانچہ کرکے اپنے بارے میں ان کے سخت رویے پر احتجاج کرنے کی ہلکی سی کوشش کی تھی۔ اس تقریر میں تو انہوں نے عمران خان اور تاحتٰی اپنی ہی پارٹی کی سربرآوردہ شخصیات کے خلاف جو زبان استعمال کی، اس کے بارے میں کوئی بھی صفائی پیش کیا جانا کافی نہیں ہوگا۔ جی ہاں ایم کیو ایم کے اندر بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف اور خاص طور پر اس پارٹی کے کراچی میں رہنما ڈاکٹر عارف علوی صاحب کے حوصلے اور استقلال نے ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بار ایم کیو ایم کو کراچی میں مستقل چیلنج کیا ہے۔ یقینا” کراچی میں ایم کیو ایم سے وابستہ ایک نئی نسل بھی ہوگی، جو کرکٹ کی شائق ہوگی اور انصاف کی آرزو مند۔ دم گھوٹنے والی فضا سے نالاں ہوگی اور زبان بندی کے اصول کی مخالف۔ نوجوانوں پر شخصیات اور بڑوں کا زور نہیں چلا کرتا ، رسیاں تڑوانا ان کی عمر کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کو احساس ہو چکا ہے کہ ان کی پارٹی کا سخت ڈسپلن زیادہ دیر برقرار رہنے والا نہیں ہے۔ الطاف حسین کی طویل غیر موجودگی اور عشرت العباد کی طویل گورنر شپ کے باعث اس پارٹی کے اندر کوئی ایسی کھچڑی پک رہی ہے، جس کا باہر والوں کو پورا اندازہ نہیں، لیکن اس کھچڑی کی مہک اب بس باہر آنے کو ہے، اس لیے الطاف حسین نے تقریبا” آخری پتہ کھیلا ہے اور اپنی بظاہر بے بسی کا رو کر اظہار کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے اراکین کی اپنے کارکنوں کے ہاتھوں "پھینٹی” لگوا دی ہے۔ عارضی طور پر تو جو ہوا سو ہوا لیکن الطاف حسین کی اس حرکت کا بیک فائر ہونے والا ہےٍ۔ ایم کیو ایم کا اقتدار پیپلز پارٹی کی معاونت سے صرف سندھ اسمبلی تک محدود ہونے کو ہے۔ مرکز میں نون لیگ نے "فی الحال” ایم کیو ایم کو اقتدار میں شامل نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ تیسری بات الطاف حسین کی یاسیت ہے۔ ظاہر ہے بیوی انہیں چھوڑ چکی ہیں، چھوٹی سی بچی کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری مرد کس حد تک پوری کر سکتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے دیار غیر میں ہیں، دیار غیر بہر صورت دیار غیر ہوتا ہے۔ ٹیلیفون پہ رابطہ اور براہ راست عوام سے رابطے کے دوسرے معانی ہونے کے علاوہ اپنے ماحول سے دور کوئی درخت اس طرح کا نہیں رہتا جیسا اپنی مٹی میں بارآور ہو سکتا ہے۔
ان کی پارٹی کے ساتھ جو ہو سو ہو لیکن کم ازکم ایک سیاستدان کو اپنی زبان پر قابو رکھنے کی عادت ضرور ہونی چاہیے۔ سوقیانہ زبان، چاند پہ تھوکے کے مترادف ہوتی کہ تھوک تھوکنے والے کے چہرے کو ہی لتھیڑ دیتی ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ تحریک انصاف کے نوجوان بھی زبان کا غلط استعمال کرتے ہیں اور عمران خان نے بھی انتخابی مہم کے دوران عوامی لہجہ اختیار کیے رکھا تھا تاہم عمران خان نے سوقیانہ زبان کم ازکم خود ہرگز نہیں برتی۔
ایک معمر عورت اور وہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ تحریک انصاف کی مرکزی نائب صدر زہرا شاہد حسین کا قتل، جسے پولیس والے اب تک ڈاکووں کی کارروائی قرار دے رہپے ہیں، کو کشیدہ سیاسی فضا میں سیاست کے تناظر میں نہ دیکھے جانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی اور وہ بھی ایسے حالات میں جب سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنا کر مارے جانا، اس شہر میں ایک معمول بن چکا ہو۔ عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ ایک ہفتہ پہلے ہی الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو تلقین کر دی تھی کہ جو جو بھی متحدہ قومی موومنٹ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنا، اگرچہ ایم کیو ایم اس الزام کو مسترد کرتی ہے لیکن ایم کیو ایم کا ٹریک ریکارڈ اپنے مخالف لوگوں کے معاملے میں کوئی اتنا اچھا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے کھڑے کھڑے زہرا شاہد حسین کے قتل کی ذمہ داری براہ راست الطاف حسین اور برطانوی حکومت پہ ڈال دی۔ الطاف حسین نے ہنگامہ آرائی کرنے والے لوگوں کے عمومی رویے سے کام لیتے ہوئے کہ اس سے پہلے کہ کوئی ہاتھ اٹھائے تم خود ہی پہلے ہاتھ اٹھا لو، ایم کیو ایم کے کارکنوں کو مشتعل کر دیا ہے تاکہ تحریک انصاف کے امن پسند کارکن کنّی کر جائیں لیکن ایسا ہونے کا نہیں چنانچہ رہ رہ کر ذہن میں یہی سوال سر اٹھاتا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ کہیں سیاسی حکومت کے ہاتھ سے پہلی بار دوسری سیاسی حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے عمل کو سبّؤتاژ کرنے کی سعی تو نہیں کی جا رہی؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: