مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان پالیسی کے روگ اور مسائل ||حیدر جاوید سید

بہت ادب و احترام سے عرض کروں ایک نیا گلے پڑنے والا ڈھول بجانے کی تیاریاں کیجئے۔ مرے تھے جن کے لئے ان کا وضو ادھورا ہے، نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور تدفین کون کرے گا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عین اس وقت جب افغان حکومت کے توسط سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات میں شرکت کے لئے ایک عدد ’’نمائشی‘‘ جرگہ بھی کابل میں موجود تھا۔ بھارتی وفد افغانستان کے دورہ پر کابل پہنچا۔ پرجوش استقبال ہوا۔ مہمانوں اور میزبانوں کے درمیان اعتماد سازی کا عالم یہ تھا کہ افغان وزیر دفاع نے کہا ’’ہم اپنے فوجیوں کو بھارت میں تربیت دلوانے کے ساتھ دیگر امور پربھی تعاون کے خواہش مند ہیں‘‘۔

کابل میں بھارتی سفارتخانے کی مکمل بحالی کے ساتھ دوسرے معاملات بھی طے پاگئے ہیں۔ افغان حکومت کے مطابق بھارت خطے میں اہم حیثیت رکھتا ہے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں رکئے، سانس لیجئے، افغان بھارت مراسم سفارتی گرمجوشی اور دفاعی تعاون ان تینوں میں سے کسی ایک بات پر اکڑفوں، اعتراض یا ہاہاکاری قطعی غلط ہوگی۔ ممالک کے مراسم مذاہب و عقائد پر نہیں فوری اور طویل المدتی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ بات کم کم لوگ سمجھتے ہیں۔

زیادہ لوگ دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک وہ جن کا خیال ہے کہ موجودہ افغان حکومت اسلام کی نشاط ثانیہ کی علمبردار اور انقلاب اسلامی کی وارث ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے افغانستان میں لڑے گئے امریکی جہاد کے لئے ہمہ قسم کا فکری، مالی اور افرادی تعاون فراہم کیا۔ کچھ نے فیض بھی پایا کچھ بس نظریہ کی چھتری اٹھائے رہے۔

دوسرا طبقہ اس خیال کا حامی ہے کہ وسیع البنیاد افغان حکومت ہی افغانوں کے مسائل اور افغان مہاجرین کی ملک واپسی کی ضامن ہے۔

افغان مسئلہ کیاہے۔ کیا کہانی افغان انقلاب ثور سے شروع ہوئی جو سوویت یونین کے تعاون سے برپا ہوااور اس کے خلاف امریکہ کی قیادت میں اہل کتاب کا جہاد منظم ہوا۔ اس جہاد کے لئے پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ بنااور پھر جہادیوں کے بھرے ہوئے جہاز اترنا شروع ہوگئے؟

افغان پالیسی کیاہے وہ جو ہمیں جنرل ضیاء الحق، اختر عبدالرحمن، حمید گل اور دوسرے جہادی تاجر سمجھاتے بتاتے رہے۔

یعنی سرخ ریچھ گرم پانیوں تک جانا چاہتاہے افغانستان پہلا پڑائو ہے۔ امت مسلمہ کی شان و آن پاکستان کا دینی فریضہ ہے کہ سرخ ریچھ کو افغانستان میں روکے۔

یاد دلادوں کہ اس وقت روکنے کی جگہ افغانستان کو سوویت یونین کا قبرستان بنانے کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ گزشتہ 44برسوں کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے افغانستان کس کا قبرستان بنا۔ سوویت یونین کا، بیرونی جہادیوں کا یا خود افغانوں کا۔ یہ حساب لگاتے سمجھتے وقت یہ ضرور مدنظر رکھئے گا کہ 50لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین اب بھی دو پڑوسی ملکوں پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں۔

یہاں ہم ایران اور پاکستان کی مہاجرین کے لئے پالیسی پر بات نہیں کررہے۔ کی تو بہت سارے لوگوں اور محکموں کے بڑوں کے دہنوں کا ذائقہ خراب ہوجائے گا۔

میرے کچھ پشتون قوم پرست اور پشتون مذہب پسند بھی ناراض ہوسکتے ہیں۔ دونوں نے پچھلی چار دہائیوں میں افغان مہاجرین کے مسئلہ پر اپنی اپنی وقتی ضرورتوں پر سیاست کی۔ اس جملہ معترضہ کی معذرت، افغان پالیسی ہمارے گلے پڑا ڈھول اور اس سے ہمارے سماج میں در آئی انتہا پسندی ہمارے گلے کا ہار ہیں۔

کسی دن ٹھنڈے دل سے حساب کیجئے گا کہ اس افغان پالیسی نے ہمیں ’’مال‘‘ کتنا دیا، لاشیں کتنی اور بدامنی کا تناسب کیا رہا۔ تمہید طویل ہوگئی۔

اصل بات یہ ہے کہ آج کے ایک بڑے اردو اخبار کے کے بیک پیج پر شائع ہوئی دو کالمی خبر اس کالم کی وجہ سے بنی ہے۔ اخبار نے دو کالمی خبر کی سرخی یہ لگائی ہے کہ ’’خودساختہ افغان جلاوطنوں کا اسلام آباد میں مظاہرہ، مظاہرین نے ریڈ ایریا میں جانے کی کوشش کی، ان کا مطالبہ تھا افغانستان کو ہمارے رہنے کے قابل بنائو، ہمیں آزاد دنیا میں جانے کے لئے مدد دو یا پاکستان کی شہریت‘‘۔

مجھے ’’خود ساختہ جلاوطن افغانوں‘‘ والے الفاظ پر اعتراض ہے۔ بیالیس برسوں سے زبردستی گلے کاہار بنے لاکھوں افغان خاندان تو مسلمان افغان مہاجرین اور ہمارے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں لیکن وحشت و بربریت کے خوف سے نقل مکانی کرنے والے چند سو افغان شہری خودساختہ جلاوطن، میرے بہت سارے دوستوں کی حب الوطنی والی رگ پھڑکنے لگے گی اگر یہ عرض کردوں کہ افغانوں کی موجودہ حالت زار کے ذمہ دار ہمارے پالیسی ساز جہادی تاجر اور ’’بردہ فروش‘‘ ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ یہی کڑوا سچ ہے۔ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ جنہیں اشرف غنی اینڈ کمپنی کی جگہ افغانستان کا انتظام دلوایا گیا وہ بھی محض ایک مسلح دھڑا ہیں۔ بہرحال جنہوں نے ان کا افغانستان پر قبضہ بحال کرانے میں مدد کی وہ ہر لحاظ سے بعض مسائل کے ذمہ دار ہیں خصوصاً موجودہ افغان حکومت کے عتاب سے بچنے کیلئے ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے والے افغانوں کے مسائل کے۔

ہمیں یا ہم میں سے کسی کو ہجرت پر مجبور ہوئے افغانوں کی توہین کا کوئی حق نہیں۔ البتہ اگر موجودہ افغان حکومت کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لئے ملک چھوڑنے والے خودساختہ جلاوطن ہیں تو پھر سارے افغان مہاجرین خودساختہ جلاوطن ہی ہیں۔

اس لئے براہ کرم انسانی حقوق کی تنظیموں، وزارت خارجہ اور دوسروں کو چاہیے کہ پچھلے چند ماہ سے اسلام آباد میں دھکے کھاتے ان چند صد افغانوں کے مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر دیکھیں۔

اب آیئے افغانستان میں جاری کالعدم ٹی ٹی پی سے ہونے والے مذاکرات پر کچھ بات کرلیتے ہیں۔

اس موضوع پر لکھے گئے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا، کالعدم ٹی ٹی پی کے سب سے اہم دو مطالبے ہیں، اولاً پاک افغان سرحد سے فوج کو ہٹانا اور آزادانہ آمدورفت، دوسرا سابق قبائلی علاقوں کوصوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے قانون کی منسوخی اور فاٹا کی سابقہ حیثیت میں بحالی۔

مذاکرات کا حصہ رہنے والے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ان دونوں مطالبات کی باضابطہ طور پر تصدیق کردی ہے تین روز قبل پشاور میں کابل سے واپسی پر ان کا کہنا تھا کالعدم ٹی ٹی پی فاٹا کی بحالی سے کم کسی بات پر آمادہ نہیں بلکہ اس نے تمام مطالبات کو اس بنیادی مطالبہ سے مشروط کردیا ہے۔

اب وہ سیانے بیانے پالیسی ساز، مذاکرات کو ناگزیر قرار دینے والے نابغے (عسکری و غیرعسکری دونوں) سامنے آئیں اور قوم کو بتائیں کہ کیا کرنا ہے؟ بتاتے وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ فاٹا کی بحالی کے معاملہ پر مولانا فضل الرحمن اور کالعدم ٹی ٹی پی ایک پیج پر ہیں۔

مکرر عرض کئے دیتا ہوں یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ عوام اور پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر کسی خودساختہ ماہر امور افغانستان کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانے کا۔

ہمارے پالیسی ساز عجیب لوگ ہیں۔ انہیں ہماری تباہی و بربادی پر کبھی ملال نہیں ہوا۔ اچھا ویسے کبھی خود ہمیں بھی اپنی تباہی و بربادی پر ملال ہوا؟

کبھی ہم نے ردعمل ظاہر کیا۔ معاف کیجئے گا ردعمل کا شعور ہوتا تو بربادیاں بونے والی افغان پالیسی سے فیض پانے والے تین دن قبل اسلام آباد پریس کلب کے باہر ’’میلہ‘‘ نہ لگاپاتے۔

بہت ادب و احترام سے عرض کروں ایک نیا گلے پڑنے والا ڈھول بجانے کی تیاریاں کیجئے۔ مرے تھے جن کے لئے ان کا وضو ادھورا ہے، نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور تدفین کون کرے گا۔

اسے چھوڑیئے، یہ سوچئے کہ اگر فاٹا کی سابقہ حیثیت کی بحالی کا مطالبہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر ہوگا کیا۔

اس سوال کا جواب صاف سامنے دیوار پر لکھا مجھے یقین ہے میری طرح آپ بھی پڑھ چکے ہوں گے۔ اس لئے دست بدستہ درخواست ہے اب بھی وقت ہے عوام اور پارلیمان کو اعتماد میں لیجئے ممکن ہے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالا جاسکے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک قدم کی پسپائی کبھی حرف آخر نہیں ہوئی باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: