مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چلے ہوئے کارتوس||حیدر جاوید سید

معاف کیجئے گا بات کسی اور طرف نکل گئی۔ گزشتہ روز صحافی کے سوال پر اسے ’’اپنا جنازہ اٹھانے کی تیاری کرو‘‘ کا کہنے والے جنرل (ر) یاسین سیکرٹری دفاع بھی رہے ہیں۔ ہمت ہے کسی میں ان کے بطور سیکرٹری دفاع کے معاملات کی سادہ سی تحقیقات کروالے؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد پریس کلب کا روسٹرم اور پریس کلب کی کرسیوں پر بیٹھ کر کلب سے باہر پریس کانفرنس پھڑکانے والے سابق فوجی افسروں کی تنظیم ’’ایکس سروس مین سوسائٹی‘‘ کے رہنمائوں نے صرف اپنے بھاشن پر اکتفا کیا۔

صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے افسران کی بیگمات نے نعرے بازی شروع کردی۔ پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد سے حکومت کی تبدیلی کے بعد ہم (سابق افسروں کے وفد) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تو انہوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ ’’90دن میں انتخابات کروادیئے جائیں گے‘‘۔

اچھا یہ آرمی چیف 90دن میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ آئین کی کس شق کے تحت کرسکتا ہے۔ کیا یہ اس کے دائرہ اختیار میں ہے؟

ہمارا حساب اور جواب سادہ سا ہے آئین میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔ ویسے یہ سابق عسکری نابغے آرمی چیف سے الیکشن لینے کیوں گئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اب بھی خبطِ عظمت کے ناگاپربت نامی پہاڑ پر کھڑے ہیں

ساعت بھر کے لئے رکئے، جنرل پرویز مشرف اس ملک کے سربراہ ہوا کرتے تھے ان کے دور میں ایک عدلیہ بحالی تحریک چلی تھی۔ اس ایکس سروس مین سوسائٹی کی عوامی ” گُھنڈ چکائی” انہی دنوں ہوئی۔ سوسائٹی والے روزانہ سپریم کورٹ کے باہر پہنچ جاتے نعرے لگاتے، آزاد عدلیہ زندہ باد،

انہی دنوں ایک صحافی نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا،” آپ کے سابق ساتھی آجکل حکومت پر بہت ناراض ہیں وکلاء تحریک میں جوش و جذبہ سے روزانہ شدید گرمی کے باوجود شرکت کرتے ہیں؟”

مشرف مسکرائے اور بولے، "یہ سب چلے ہوئے کارتوس” ہیں میں کل وزیراعظم سے کہہ دیتا ہوں کہ ان کے رقبوں اور پلاٹوں کی الاٹ منٹوں کی فائلیں منگواکر دیکھیں پھر یہ کہیں دکھائی بھی نہیں دیں گے۔

واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ عدلیہ آزاد کروانے والے سڑکوں سے اٹھے اپنے آرام دہ بنگلوں میں بیٹھ گئے۔ کبھی کبھار سوسائٹی کا ایک پریس ریلیز اخبارات کو موصول ہوجاتا جس میں ملکی صورتحال پر تشویش کااظہار ضرور شامل ’’باجہ‘‘ ہوتا۔

سوموار کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک سابق جنرل اور سیکرٹری دفاع آصف یٰسین نے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ’’تم اپنا جنازہ اٹھوانے کی تیاری کرو‘‘۔

کیا تکبر ہے۔ رسی جل گئی بل نہ گیا۔

سابق فوجی افسروں نے وزیر داخلہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی کہا کہ پارلیمان توڑ کر انتخابات کروائے جائیں ۔ یہ لوگ پاکستان کے شہری ہیں سیاسی عمل میں شرکت بیان بازی مطالبات یہ سب ان کا حق ہے لیکن یہ بھی ہے کہ یہ حضرات اتنے سادہ، فیض بخش اور دیانت و صداقت کے مجسمے ہرگز نہیں۔ ہر افسر کی اپنی کہانی ہے۔ کہانی کیا ہے طویل داستان ہے۔

ان کے ایک ترجمان چنددن قبل ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لندن پہنچ کر سوشل میڈیا پر لکھا "میں خیریت سے اپنے خاندان کے پاس پہنچ گیا ہوں۔ میری بوڑھی والدہ کو کچھ ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا”۔

پچھلے چند دنوں سے ایک خبر گردش کررہی ہے کہ 140 سابق افسروں کی پنشن روک لی گئی ہے۔ لندن نکل جانے والے میجر نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر پنشن روکے جانے کا نوٹس بھی لگایا ہے۔

اگلے روز ایک سابق جنرل کی بیگم نے رقیب، دشمن اور شریک مارنے کی دعائیں بھی بتائیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں سمیت اگر یہ دعائیں شوہروں کی نوکری کے دنوں میں روزانہ 21،21بار پڑھ لی ہوتیں تو آج دنیا کے نقشے پر امریکہ، بھارت اور اسرائیل دیکھائی ہی نہ دیتے۔

کیوں نہیں پڑھیں؟ اس سوال کے جواب میں فقیر راحموں کہتے ہیں "بچوں کو امریکہ وغیرہ سیٹ جو کروانا تھا” ،

ایک بیگم صاحبہ کو جنرل حمید گل کی قابلیت بھی یاد آرہی تھی کہہ رہی تھیں انہیں اس لئے آرمی چیف نہیں بنایا گیا تھا کہ وہ امریکہ دشمن تھے۔

یہ سن کر میں اور فقیر راحموں بڑی دیر تک ہنستے رہے اور کیاکرتے۔ اسی ہنسی کے دوران نارروال کے وہ بدنصیب خاندان یاد آگئے جن کی زمینوں پر مرحوم نے بھری جوانی میں قبضہ کیا تھا۔ عسکری بینک سے ان کے خاندان کا لین دین الگ قصہ ہے، بینک جانے اور خاندان۔

بینک سے یاد آیا برسوں نہیں عشروں قبل غالباً 1994ء یا 1995ء میں لاہور پریس کلب میں تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے فرزند اعجازالحق کی دھواں دھار پریس کانفرنس کے بعد ان سے پوچھا، آپ کے والد نے یو بی ایل ملتان کینٹ کی برانچ سے جو مختصر قرضہ لیا تھا وہ ادا کردیا کہ نہیں؟

وہ ناراض ہوکر اپنے شہید والد کے فضائل سنانے لگے۔ مجھے انہیں سمجھانا پڑا کہ شہادت اور شہید کے فضائل و درجات سے اچھی طرح واقف ہوں اصل سوال کا جواب دیجئے۔

خیر چھوڑیئے یہ قصہ اور ہے۔

ہم سابق عسکری نابغوں (فقیر راحموں انہیں عسکری دانش کے ریٹائر نوری نت کہتا ہے) کی پریس کانفرنس اور مطالبات پر بات کررہے تھے۔

ایک بار پھر رکئے، واپڈا کے سابق چیئرمین جنرل (ر) مزمل کو نیب نے اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں طلب کیا تھا وہ آج تک نیب میں پیش نہیں ہوئے اطلاع یہ ہے کہ موصوف فرانس نکل گئے پتلی گلی سے ۔

نیب نے کسی سیاستدان کو طلب کیا ہوتا اور وہ پیش نہ ہوتا تو اس وقت سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ماتمی پھوڑیاں بچھ چکی ہوتیں۔

ایک صاحب تھے ایڈمرل منصورالحق۔ 9ارب روپے کی کرپشن کی تھی 86کروڑ کی پلی بارگین میں رہا ہوگئے۔ ان کا قصہ اور ان کی وجہ سے نیب کے ایک سربراہ جنرل خالد مقبول سے ہوا ملاکھڑا بھی ایک داستان ہے پھر کسی دن عرض کروں گا۔

سابق فوجی افسروں کے مطالبات بالکل درست ہیں۔ رانا ثناء اللہ کی وجہ سے 25مئی کو ان سابقین کو اسلام آباد میں پولیس وغیرہ نے پوچھا تک نہیں۔

اچھا ویسے ان میں سے کتنوں نے کس کس میدان میں داد شجاعت کا مظاہرہ کیا اس پر پردہ پڑا ہوا ہے۔

جنرل (ر) علی قلی خان، خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے سمدھی جنرل حبیب اللہ خان کے صاحبزادے ہیں۔ جنرل حبیب اللہ کا خاندان دوران ملازمت ہی پاکستان کے پہلے بائیس سرمایہ دار خاندانوں میں شامل ہوگیا تھا۔

ہماری نسل کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ 1960ء کی دہائی کی سامراج دشمن اور سرمایہ داری کی مخالف سیاست میں روزانہ ان بائیس سرمایہ دار خاندانوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ تب ترقی پسند سیاستدان، صحافی اور سیاسی کارکن روزانہ کی بنیاد پر ان کی دولت مندی کا نسخہ پوچھا کرتے تھے۔

پھر یہ ہوا کہ ایوب خان کے صاحبزادے کیپٹن گوہر ایوب خان کی شادی جنرل حبیب اللہ کی صاحبزادی سے ہوگئی گوہر ایوب کو آپ جانتے ہی ہوں گے ایوبی دور کے سانحہ لیاقت آباد کے مرکزی کردار تھے۔

جنرل علی قلی خان چار سیاسی جماعتیں بدلنے والے عمر ایوب خان کے ماموں ہیں۔

معاف کیجئے گا بات کسی اور طرف نکل گئی۔ گزشتہ روز صحافی کے سوال پر اسے ’’اپنا جنازہ اٹھانے کی تیاری کرو‘‘ کا کہنے والے جنرل (ر) یاسین سیکرٹری دفاع بھی رہے ہیں۔ ہمت ہے کسی میں ان کے بطور سیکرٹری دفاع کے معاملات کی سادہ سی تحقیقات کروالے؟

مکرر عرض ہے یہ سبھی وہ لوگ ہیں جن میں سے کچھ افغانستان میں امریکی جہاد کے وقت ملٹری اشرافیہ کا حصہ تھے اور کچھ 9/11 کے بعد انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے وقت۔ آج یہ منہ پھاڑ کر امریکہ مخالف بنے پھرتے ہیں ان میں کسی نے اس وقت امریکہ نواز افغان پالیسی سے اختلاف کرکے استعفیٰ دیا ہو؟

کسی نے چیف کو اختلافی خط لکھا ہو؟

معاف کیجئے گا یہ ایسے ہی امریکہ دشمن ہیں جیسے جنرل (ر) حمید گل مرحوم۔ وہ افغانستان میں امریکی جہاد کے اہم کرداروں میں شامل تھے۔

آرمی چیف اس لئے نہ بن سکے کہ انہوں نے اپنی افسری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلزپارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا تھا۔ ویسے ہی جیسے مرحوم میجر جنرل (ر) احتشام ضمیر نے متحدہ مجلس عمل نامی مذہبی سیاسی اتحاد بنوایا تھا۔ نوازشریف نے حمید گل کو آرمی چیف کیوں نہ بنایا یہ کہانی پھر سہی، کالم کے دامن میں مزید گنجائش نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: