مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آخر کب تک ۔۔؟||مظہراقبال کھوکھر

غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ہوں یا عالمی مالیاتی ادارے جب یہ لوگ قرضوں کی واپسی کے طریقہ کار پر غور کرتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دیتے ہیں یا پھر عوام کی ضرورت کی اشیاء پر مزید ٹیکس لگا دیا جاتا ہے

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی پرانی کہانی ہے وہی پرانی باتیں ہیں خزانہ خالی ہے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے آئی ایم ایف سے قرض نہ لیا گیا تو معاشی صورتحال بگڑ سکتی ہے یہ سب باتیں کوئی نئی نہیں جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر آنے والی حکومت سے یہی سنتے آئے ہیں کہ سابقہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے قومی خزانہ خالی ہوچکا ہے جب پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے بھی ہمیں ایسی ہی کہانیاں سنائیں تھیں اس سے قبل بھی ہر حکومت اقتدار میں آتے ہی پہلا رولا یہی ڈالتی رہی  کہ لٹ گئے کھا گئے کچھ نہیں بچا خزانہ خالی ہے مگر خزانہ خالی ہوکر بھی ان کے خالی پیٹ اس طرح بھرتا رہا کہ کہ ان کی نسلیں سنور گئیں اور پوری قوم کی آنے والی نسلیں مقروض ہوگئیں البتہ ایک بات ماضی سے کہیں زیادہ مختلف اور تشویشناک ہے کہ پہلے تمام سیاسی جماعتیں اور ہر آنے والی حکومت یہ چورن بیچا کرتی تھیں کہ ہم ملک اور قوم کو قرضوں سے نجات دلائیں گے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جان چھڑائیں گے اس حوالے سے مسلم لیگ ن نے 1998 میں قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم چلائی جس میں ہر شخص نے اپنی حثیت سے بڑھ کر حصہ ڈالا یہاں تک کہ بچوں نے جیب خرچ اور عورتوں نے زیورات بھی دئے مگر کتنا قرض اترا اور کتنا ملک سنورا سب کے سامنے ہے مگر وہ پیسہ کہاں گیا آج تک سامنے نہیں آسکا جنرل مشرف نے بھی آئی ایم ایف سے نجات کے لیے سادگی اپنانے کا اعلان کیا اور پھر سادگی کے ساتھ قوم کو مزید قرضوں جکڑ کر چلتے بنے اور پھر عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنے کا اعلان کیا مگر پھر انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور  خودکشی کے لیے قوم کو مجبور ہونا پڑا مگر آج صورتحال کچھ ایسی بدلی ہے کہ حکمران آئی ایم ایف کے پاس جانے اور قرض ملنے کی امید کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں گزشتہ روز حکمران اتحاد کے وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف نے کچھ شرائط رکھی تھیں جن میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ ، پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ ، ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا خاتمہ اور ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ پروگرام پاکستان تحریک انصاف نے شروع کیا جس کے تحت 6 ارب ڈالر ملنے تھی جس کی پہلی قسط 3 ارب ڈالر پاکستان وصول کر چکا جس کے بعد یہ پروگرام تعطل کا شکار تھا اب جبکہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکمشت 30 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ہی بار کیا گیا سب سے زیادہ اضافہ ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی بد خبری بھی دے رہے ہیں  ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 سے 50 روپے مزید اضافہ ہوسکتا اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے بجلی کے صارفین پر مزید 40 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا یہ بات تو واضح ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا بجلی کے نرخوں میں اضافہ اس کے براہ راست اثرات عام آدمی پر پڑتے ہیں مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب حکمران قیمتوں میں اضافہ کر کے کہتے ہیں اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا حالانکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب عام آدمی کے لیے جینا مشکل ہوچکا ہے حکومتیں بدلیں یا جماعتیں بدلیں عام آدمی کے دن نہیں بدلتے اور ہر گزرتا دن بد سے بد تر ہوتا جارہا ہے۔ ان دنوں حکومت عام لوگوں کو ریلیف دینے کے بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے جس کے تحت ایک کروڑ 40 لاکھ گھرانوں کو ماہانہ 2 ہزار وظیفہ دیا جائے گا حکومت کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت 8 کروڑ 40 لاکھ افراد مستفید ہو سکیں گے یعنی فی خاندان 6 افراد شمار کئے گئے ہیں اب اس سے بڑھ کر عام لوگوں کے ساتھ کیا مذاق ہوسکتا ہے کہ 2 ہزار فی خاندان یعنی ایک فرد کو ماہانہ  333 روپے ملیں گے جو کہ روزانہ کے 11 روپے بنتے ہیں سمجھ نہیں آتی حاتم طائی کی قبر پر اتنی زور سے لات مارنے پر کس کا شکریہ ادا کیا جائے حکومت میں آنے والوں کا شکریہ ادا کیا جائے یا حکومت میں لانے والوں کا کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام کو کیا ملا وہی پرانی باتیں اور گھسے پٹے جملے مگر کیونکہ حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کی مرضی یہی تھی تو عوام کا کیا ہے ان کی پہلے کوئی اہمیت تھی نہ آگے ان کی مرضی ہونی ہے۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ہوں یا عالمی مالیاتی ادارے جب یہ لوگ قرضوں کی واپسی کے طریقہ کار پر غور کرتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دیتے ہیں یا پھر عوام کی ضرورت کی اشیاء پر مزید ٹیکس لگا دیا جاتا ہے  حالانکہ اگر ہمیشہ عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے اگر اشرافیہ تھوڑی سے خود قربانی دے دے تو ملک کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں خاص طور پر ہمارے ایم این ایز ، ایم پی ایز ، وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیران کی تنخواہیں اور مراعات روک دی جائیں ان سے پرتعیش اور قیمتی گاڑیاں واپس لے کر چھوٹی گاڑیاں دے دی جائیں ساتھ ہی سیکیورٹی کے نام پر ناجائز پروٹوکول واپس لے لیا جائے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم کیا جائے تو بہت حد تک بچت ہوسکتی ہے مگر کیا کیجئے شاہانہ ذہنیت سے اقتدار میں آنے والوں کے لیے سب سے مشکل کام تو سادگی اپنانا ہوتا ہے کیونکہ جب تک ہمارے حکمران نمود و نمائش نہ کریں انہیں اپنے کام کا خود کو بھی یقین نہیں آتا جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک طرف حکمران یہ رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے پاس زہر کھانے جوگے پیسے نہیں اور دوسری طرف دورہ ترکی کے حوالے سے حکمرانوں نے اربوں روپے کے اشتہارات جاری کئے مگر سوال یہ بے کہ آخر کب تک ہم قرض کی مئے پی کر خرمستیاں کرتے رہیں گے حکمرانوں نے ماضی میں اس پر غور کیا اور نہ ہی آج سنجیدگی سے اس پر سوچ رہی ہے اب بھی وقت ہے ہماری تمام سیاسی قیادت سول اور عسکری ادارے اس پر غور کریں کیونکہ اس قوم میں حکمرانوں کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانے کی مزید سکت باقی نہیں رہی حالات جس طرح دن بدن خراب ہورہے ہیں اور عام لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے حکمرانوں نے اگر معاشی صورتحال میں بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہ کئے تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیں اگر ایسا ہوا تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں ہوگا اور پھر حکومتیں محفوظ رہیں گی اور نہ ہی حکومتیں بنانے والے کچھ کر پائیں گے۔

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: