مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بند گلی میں پھنسی معیشت||حیدر جاوید سید

’’موڈیز‘‘ کی حالیہ معاشی رپورٹ کو گولی ماریئے، یہاں جو خطرات منڈلارہے ہیں وہ حقیقت بنے تو کیا ہوگا؟ پونے چار سال جن کو مہنگائی محسوس نہیں ہوئی اب وہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ جو اس عرصہ میں احتجاج کرتے رہے وہ تاویلات پیش کررہے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے لٹر اضافے کے بعد پٹرول 209 روپے 86پیسے اور ڈیزل 204 روپے 15پیسے لٹر ہوگیا ہے۔ ایک ہفتہ میں 60روپے اضافہ یقیناً خودکش حملے سے کم نہیں۔

مفتاح اسماعیل کو کوس لیجئے یا اتحادی حکومت کے لتے لیجئے۔ جو جی میں آئے وہ کیجئے لیکن یاد رکھئے، ہم 43ارب 34کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارے والی معیشت کے ساتھ جی رہے ہی۔ رواں مالی سال کا تجارتی خسارہ 58فیصد ہے۔

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کو طنزیہ فقرے اچھالنے اور بھاشن دینے کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کن شرائط پر لیا تھا؟

ساعت بھر کے لئے رکئے۔ فروری میں جب اس وقت کے وزیراعظم نے پٹرولیم کی قیمت میں 10روپے لٹر اور بجلی کی قیمت میں 5 روپے یونٹ سبسڈی دے کر رعایتی نرخوں کو جون تک ’’فریز‘‘ کرنے کا اعلان کیا تھا تبھی ان سطور میں عرض کیا۔ حکومت کا فیصلہ غلط ہے۔

دو وجوہات عرض کی تھیں اولاً یہ کہ یہ سبسڈی آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدہ سے انحراف ہے۔ اس کے منفی اثرات ہوں گے۔ ثانیاً یہ کہ سبسڈی کی رقم آئے گی کہاں سے؟ قیمتیں فریز کرنے سے پیدا شدہ صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے باردیگر عرض کیا تھا کہ آئی ایم ایف نے 92 کروڑ ڈالر کی قسط روک کر مذاکرات معطل کردیئے ہیں۔ وزارت خزانہ نے مذاکرات کی معطلی اور قسط روکے جانے کی خبر کو ملک دشمنی پر مبنی قراردے دیا۔

تحریر نویس نے اس سطور میں عرض کیا کہ وزارت خزانہ کے ذمہ داران وزیراعظم اور عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ ستم یہ ہوا کہ وزارت خزانہ کے دفتر سے ایک بیان ذرائع ابلاغ میں نشروشائع کروایا گیا جس سے یہ تاثر دیا گیاکہ قسط روکنے اور مذاکرات معطل کرنے کی آئی ایم ایف کے حکام نے تردید کی ہے۔

بعدازاں آئی ایم ایف کے مقامی ذمہ داروں نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا کہ حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ان باتوں کو مکرر دہرانے کا مقصد خودستائی نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر معاہدہ کا طوق ملک اور عوام کے گلوں میں ڈالنے کے 2افراد ذمہ دار ہیں۔ حفیظ شیخ اور شوکت ترین، دونوں جناب عمران خان کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔

چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات انہوں نے ہی کئے تھے۔ شوکت ترین کے شخصی احترام کے باوجود یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ وہ اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہیں اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے اور ان کے پیش رو نے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر قرضے پروگرام کا جو معاہدہ کیا اس میں طے ہوا تھا کہ حکومت پٹرولیم، بجلی اور سوئی گیس سمیت دیگر مدوں میں دی جانے والی سبسڈی ختم کردے گی۔

پٹرولیم لیوی کو فی لٹر 30روپے تک لے جایا جائے گا۔ 4روپے ماہوار لیوی بڑھانے کی تصدیق تو خود ترین نے ایک پریس کانفرنس میں کی تھی۔

یہی بنیادی نکتہ ہے۔ ایک طرف آپ سبسڈی ختم کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں دوسری طرف سبسڈی دے کر قیمتیں فریز کردیتے ہیں 5ماہ کے لئے۔ قیمتیں فریز کرنے سے واہ واہ تو ہوگئی مگر اس سے جو بوجھ پڑا وہ کس نے اٹھانا تھا؟ لاریب ہمیں اور آپ کو ان ارسطوئوں پر تنقید کا حق ہے جو اس وقت کہتے تھے کہ آج ہم اقتدار میں ہوتے تو اس طرح کے ظالمانہ معاہدے نہ کرتے۔

پتہ نہیں حقیقت پسندی کے مظاہرے کی بجائے سیاستدان جھوٹ کی نائو کیوں چلاتے ہیں؟ کیا شوکت ترین عوام کو حلفاً بتاسکتے ہیں کہ قسط روکنے کی وجہ سبسڈی اور قیمتوں کو فریز کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے لی گئی رقم میں سے 72 کروڑ ڈالر غیرترقیاتی مد میں استعمال ہونا بھی نہیں تھا؟

کیونکہ معاہدہ میں پہلی بار یہ شرط رکھی گئی تھی کہ آئی ایم ایف سے لی گئی رقم غیرترقیاتی مد میں استعمال نہیں ہوگی۔

ثانیاً سعودی عرب کا مالیاتی معاہدہ ہے۔ کیا اس میں یہ شرط شامل نہیں تھی کہ 2ارب ڈالر کی رقم اس وقت تک زرمبادلہ کی سپورٹ کے لئے رکھی جاسکتی ہے جب تک آئی ایم ایف معاشی بہتری سے مطمئن ہے جس دن آئی ایم ایف نے معاشی بہتری کو غیرتسلی بخش قرار دیا 72گھنٹوں میں 2ارب ڈالر کی رقم واپس کرنا ہوگی۔ سادہ ترجمہ یہ ہے کہ ڈیفالٹ نہ کرنے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کی معتبر ہوگی پاکستانی حکومت کی نہیں۔

اب آیئے موجودہ حکمران اتحاد کی پالیسیوں کی طرف۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب علاج نہیں تھا مریض لینے کی ضرورت کیا تھی۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ڈیفالٹ کرجانے کے خدشات نومبر 2021ء سے منڈلارہے تھے۔ داخلی مسائل تو تھے ہی خارجی تنہائی عذاب بنی ہوئی تھی۔ جناب عمران خان کے پونے چار سالہ دور کی خارجہ پالیسی کا تجزیہ کرلیجئے، ماسوائے منہ بگاڑ اور الفاظ چباکر بولنے کے اور اس شعبہ میں کیا ہوا۔

آج جو حالات ہیں یہ اس صورت میں بھی ہوتے اگر حکومت تبدیل نہ ہوئی ہوتی۔ وجہ صرف اور صرف آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے۔

اس معاہدے کے علاوہ بھی چند باتیں ہیں مثلاً بدترین حالات کے باوجود ہماری حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ (سول و ملٹری دونوں) قربانی دینے پر تیار نہیں۔ (کل تھے نہ آج ہیں)

غیرترقیاتی اخراجات، صاف لفظوں میں یہ کہ آئی ایم ایف نے دفاعی بجٹ میں کمی کا کہا تھا۔ ہم نے یہ شرط مانی تو معاملہ معاہدہ تک پہنچا۔ ورنہ شاید 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کا معاہدہ ہی نہ ہوتا۔

سی پیک رول بیک ہوا جس سے چینی حکومت کا اعتماد مجروح ہوا۔

یہ وہ نکات ہیں جن کی بنا پر اپریل میں ان سطور میں ایک بار پھر یہ عرض کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے والے عذابوں سے کھیل رہے ہیں۔ یہ وضاحت کردوں کہ تحریک عدم اعتماد بہرحال جمہوری عمل کا حصہ ہی ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ جن کی پالیسیوں اور الیکشن مینجمنٹ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے انہیں محفوظ راستہ کیوں دیا جائے۔

بہرحال اب جو صورت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ لگتا تو نہیں کہ عمل ہو پھر بھی حکومت سے یہ درخواست کی جانی چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف سے پچھلے دور میں ہوئے معاہدہ کے مندرجات پارلیمان میں لائے اور اسکے ساتھ یہ بھی بتائے کہ حالیہ مذاکرات میں دونوں طرف سے کیا وعدے وعید ہوئے۔

صاف سیدھی بات یہ ہے کہ ہم معیشت کی بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کا یہ کنا کہ بس ڈیڑھ دو ماہ مشکل ہیں ویسا ہی جھوٹ ہے جیسا سابق حکمران قیادت کا یہ موقف کہ ملک معاشی طور پر ترقی کررہا تھا ہمیں نکال کر بیڑا غرق کردیا گیا۔

رواں مالی سال کا تجارتی خسارہ 58فیصد ہے۔ یہ گیارہ ماہ کا حساب ہے ان میں سے 9 ماہ تو اونچی اڑان کے دعویداروں کی حکومت تھی پھر خسارہ کیوں بڑھا؟ مجموعی خسارہ 43ارب 34کروڑ ڈالر ہے۔ یہ راتوں رات تو نہیں ہوا۔

اس کنویں میں دھکیلنے یا یوں کہہ لیجئے بند گلی میں پھنسانے کے ذمہ دار کون ہیں؟

’’موڈیز‘‘ کی حالیہ معاشی رپورٹ کو گولی ماریئے، یہاں جو خطرات منڈلارہے ہیں وہ حقیقت بنے تو کیا ہوگا؟ پونے چار سال جن کو مہنگائی محسوس نہیں ہوئی اب وہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ جو اس عرصہ میں احتجاج کرتے رہے وہ تاویلات پیش کررہے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ جگہ بدلتی ہے کردار بدلتے ہیں، حالات نہیں بدلتے۔ باردیگر عرض کردوں جب تک حکمران اشرافیہ اور سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ مراعات کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہوتے، غیرترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی کچھ بھی نہیں ہونا۔

جگہ اور کردار بدلنے کی بجائے نظام کی تبدیلی کے لئے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: