مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنگجوؤں سے مذاکرات، سوال تو ہوں گے||حیدر جاوید سید

لوگ سوال کریں تو برا منانے کی بجائے ٹھنڈے دل سے سوالوں کا جواب دیجئے۔ ہاں اگر یہ خواب دیکھا جارہاہے کہ جنگجو پرامن معاشرے کا حصہ بن جائیں گے تو یہ جاگتی آنکھوں کا خواب ہے بس۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات جناب عمران خان کے دور میں ہوئے تھے اب بھی ہورہے ہیں۔ سوال اس وقت بھی اٹھائے گئے کہ مذاکرات کے لئے پارلیمان کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ ان کے مطالبات کیا ہیں۔ قومی دھارے میں لانے کا سادہ ترجمہ کیا ہے؟

سوالات اب بھی موجود ہیں بلکہ تقریباً وہی ہیں۔ پارلیمنٹ بے خبر ہے۔ گرم سیاسی میدان میں اڑتی دھول کے پیچھے کیا ہورہا ہے اور کون کررہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کم از کم عوام تو بالکل بھی نہیں، بجا کہ یہ مذاکرات افغان عبوری حکومت کے توسط سے ہورہے ہیں لیکن کالعدم ٹی ٹی پی اپنے گرفتار شدگان کی رہائی چاہتی ہے۔ سواتی طالبان والے مسلم خان اور محمود خان کی سزائیں صدارتی حکم نامے کے ذریعے ختم کرکے ان کی رہائی عمل میں آچکی۔

ٹی ٹی پی کے مطالبات میں پاک افغان سرحد سے فوج کو ہٹانا، مالا کنڈ ڈویژن کا انتظام فوج کی بجائے ایف سی کے حوالے کرنا، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد میں مارے گئے اپنے جنگجوئوں کا معاوضہ، سابق قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ واپس لینے کے ساتھ چند مطالبات اور بھی ہیں۔ ان میں اہم ترین مطالبہ ملک میں مخلوط تدریسی نظام کے خاتمے کا ٹائم فریم ورک بھی شامل ہے۔ جان کی امان رہے تو عرض کروں یکساں قومی نصاب تعلیم کا اسلامی و تاریخی حصہ ٹی ٹی پی کے ہم خیال مذہبی رہنمائوں کی منظوری سے شامل کیا گیا تھا۔

جہاں تک مرنے والے جنگجوئوں کے معاوضے کا تعلق ہے تو یہ ویسے کوئی نئی بات نہیں قبل ازیں بھی اس طرح کے مطالبات ہوئے اور ادائیگی بھی۔

جس بات کو ہمارے یہاں پچھلے سال کے دسویں مہینے سے اب تک مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی، جنگجوئوں کے مختلف دھڑوں کا اتحاد ہے۔

پچھلی دہائی میں اس تنظیم نے مختلف کاروبار بھی کئے۔ اغوا برائے تاوان سے بھتہ وصولی اور منظم بینک ڈکیتیوں تک۔ اب آگے کون بڑھنا چاہتا ہے۔

ہم (ریاست) یا جنگجو؟ اس سوال سے قبل ایک سوال ہے وہ یہ کہ اگست 2021ء کے بعد ٹی ٹی پی کو افغان عبوری حکومت نے جو جدید اسلحہ فراہم کیا اور پھر اگست کے بعد سے اب تک پاکستانی سرزمین پر اہداف کے حصول کے لئے جو کارروائیاں ہوئیں وہ دبائو میں لاکر مذاکرات پر مجبور کرنے کے لئے تھیں یا یہ مذاکرات ( دونوں مرحلے ) افغان عبوری حکومت کی درخواست پر شروع ہوئے تھے ؟

اب بتایا جارہاہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے دوران غیرمعینہ عرصہ کے لئے جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا ہے۔ جنگ بندی کاایک معاہدہ پچھلے سال بھی ہوا تھا وہ کس نے توڑا؟

طرفین کے الزامات کو اٹھارکھئے تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ ٹوٹنے میں افغان عبوری حکومت کی ہلہ شیری، عملی مدد اور بعض ذمہ داران کے نامناسب بیانات بھی معاون بنے۔ خصوصاً سرحدی باڑ اکھاڑے جانے کے عمل میں افغان انتظامیہ معاون و مددگار رہی۔

اب جس سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاک افغان بارڈر سے فوج ہٹانے کا مطالبہ اور ضمنی مطالبہ آزادانہ آمدورفت یہ قابل قبول ہیں؟

کیا کوئی ریاست اپنی سرحدوں کی حفاظت و نگرانی کی ذمہ داریوں سے الگ ہوسکتی ہے۔

اگر مرنے والے جنگجوئوں کا معاوضہ دیاجاتا ہے تو ان کی کارروائیوں سے موت کا رزق ہوئے ستر ہزار پاکستانیوں کا معاوضہ کون دے گا؟

مکرر یہ بات عرض کردوں کہ جنگجوئوں سے مذاکرات سے قبل جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت تھی اس سے صرف نظر کیا گیا۔ اصولی طور پر سابق حکومت کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر اس پر بات کرنی چاہیے تھی۔

ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود اس وقت کی حکومت کو ان مذاکرات کا اس وقت علم ہوا جب اس کا ذکر ذرائع ابلاغ میں ہوا۔

اب بھی جو بات عوام سے چھپائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے صرف سابق قبائلی علاقوں کے ادغام کو منسوخ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان سابق قبائلی علاقوں کا انتظامی کنٹرول بھی طلب کیا ہے۔ انتظامی کنٹرول کے مطالبے کو بارڈر سے فوج ہٹانے کے نکتہ کے ساتھ ملاکر پڑھ لیجئے۔ کیا آب بھی وہی سمجھ پارہے ہیں جو اس تحریر نویس کو سمجھ میں آرہا ہے؟

آگے بڑھنے سے قبل یہ سوال بھی آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں کہ کیا ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے گروپ بھی اس معاہدے کو تسلیم کریں گے؟

پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہاہے کہ جس کمزوری کا مظاہرہ ہم کررہے ہیں اس کا نتیجہ 2004ء والا نکلے گا۔ ٹی ٹی پی کے مختلف کمانڈر سابق قبائلی علاقوں میں پھر سے وار لارڈز بن کر ابھریں گے۔

ایسا ہوا تو کرم ایجنسی والوں کا مستقبل کیا ہوگا، ماضی جیسا؟

کیا مذاکرات کاراتنے سادہ ہیں کہ وہ معروضی حالات، ماضی کے معاملات اور مستقبل تینوں کو سامنے رکھ کر تجزیہ بھی نہیں کرسکتے؟

مجھے معاف کیجئے گا، جو بات سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ہم‘‘ ایک خاص دبائو کا شکار ہیں۔ یہ دبائو کیوں ہے اس پر انہیں بات کرنی چاہیے جو خود کو ’’طرم خان‘‘ سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں روئے زمین پر ان سے بڑا معاملہ فہم اور زیرک کوئی نہیں۔

یہ سطور لکھتے وقت اطلاع ملی کہ مالا کنڈ کے معاملات ایف سی کو سونپ دیئے گئے ہیں۔ اطلاع درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ٹی ٹی پی کی شرائط من و عن قبول کرنے کی طرف گامزن ہیں۔

غلط ہے تو اس پر کسی تاخیر کے بغیر حکومت خصوصاً خیبر پختونخوا حکومت کو تردید کرنی چاہیے۔

بہت احترام کے ساتھ عرض کروں کیا موجودہ حالات میں حکمران اتحاد اپنی پوزیشن واضح کرے گا۔ ہمیں کون بتائے گا کہ پچھلے دور سے اب تک ہورہے مذاکرات میں مملکت کے مفادات کا دفاع کس طور ہوا۔

ایک جنگ ’’اس بحث سے قطع نظر کہ وہ ہماری تھی، کرائے پر لی گئی یا گلے پڑگئی’’ اس جنگ میں اسی ہزار کے قریب پاکستانی کھیت ہوئے تھے۔

ستر ہزار سے زائد عام شہری اور سات ہزار کے قریب سکیورٹی فورسز کے لوگ۔ سوات میں آپریشن ہوا، پھر ضرب عضب اور ردالفساد ہمیں کامیابیوں کا ہی بتایا گیا۔ کیا کامیاب ہونے والے مذاکرات اپنی شرائط پر کرتے ہیں یا پھر کسی ہارے ہوئے لشکر کی شرائط پر؟

یہ اہم ترین سوال ہے۔ جن جنگجوئوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے (کچھ کو رہا بھی کردیا گیا ہے) یقیناً ان میں سے سزا یافتہ افراد کی سزائیں صدر مملکت ہی معاف کریں گے تو رہائی ہوگی۔

خدشات و خطرات جو منڈلارہے ہیں کیا محض "امکانات” ہیں۔ صورتحال قابو میں ہے؟

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایک جنگ جس میں ہمارے ہی اسی ہزار افراد مارے گئے اس جنگ کے معاملات اور پس منظر کے حوالے سے ذرائع ابلاغ نے ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ چالیس بیالیس برسوں کی افغان پالیسی پر کبھی عوامی مکالمہ نہیں ہوا۔

مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ خون منہ کو اور دولت ہاتھوں کو لگی ہو تو جبلت آسانی سے تبدیل نہیں ہوتی۔

سرِتسلیم خم امن و استحکام ہماری ضرورت ہے مگر کیا ضرورت اور کمزوری گڈمڈ نہیں ہوگئے؟

باردیگر عرض ہے وسیع قومی مکالمے کی ضرورت ہے۔ معاملہ پارلیمان میں لے جایئے اور کھل کر بات کیجئے۔

لوگ سوال کریں تو برا منانے کی بجائے ٹھنڈے دل سے سوالوں کا جواب دیجئے۔ ہاں اگر یہ خواب دیکھا جارہاہے کہ جنگجو پرامن معاشرے کا حصہ بن جائیں گے تو یہ جاگتی آنکھوں کا خواب ہے بس۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: