مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فاقہ مستی رنگ نہیں لانے کی حضور ||حیدر جاوید سید

میرے لائق احترام دوست اور مستقل عزیزی طارق شیراز نے دوستوں کے گروپ میں اختلافی نوٹ لکھا۔ ان کاکہنا تھا کہ اولاً یہ جذباتی باتیں ہیں، ثانیاً ان پر عمل کیسے ہوگا۔ سوال مناسب اور اعتراض بجا۔ عمل تو کرنا ہی پڑے گا۔ کون کرے گا، یہ صاحبان اقتدار کا کام ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض ہے، ڈاکٹر مصدق ملک (وفاقی وزیر مملکت) کہتے ہیں ’’حکومت کے پاس زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں ہیں‘‘۔ پیسے بچائے جاسکتے ہیں، کیسے، گزشتہ کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کیا تھا۔

میرے لائق احترام دوست اور مستقل عزیزی طارق شیراز نے دوستوں کے گروپ میں اختلافی نوٹ لکھا۔ ان کاکہنا تھا کہ اولاً یہ جذباتی باتیں ہیں، ثانیاً ان پر عمل کیسے ہوگا۔ سوال مناسب اور اعتراض بجا۔ عمل تو کرنا ہی پڑے گا۔ کون کرے گا، یہ صاحبان اقتدار کا کام ہے۔

ہاں سکیورٹی سٹیٹ میں کس کی جرات ہے وہ نوکری خطرے میں ڈالے۔ سی پیک والے معاملے میں پیدا ہوئے تنازع کا انجام نوازشریف کی رخصتی کے طور پر سب کے سامنے ہے۔ پانامہ کیس اقامہ میں سزا، دیسی خلیل جبران کے چٹکلے، انہیں دنوں ان سطور میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا رہا ’’سب گول مال ہے‘‘۔

جس سی پیک کی کمائی پر مالکوں اور نوازشریف کے درمیان جھگڑا شروع ہوا اس کے ساتھ گزشتہ پونے چار برسوں میں کیا سلوک ہوا؟

اپنے قائد انقلاب عمران خان کو چاہیے کہ کسی دن عوام کو یہ ضرور بتائیں کہ سی پیک منصوبے پر کام کی رفتار 98 فیصد سست کس کی خوشنودی کیلئے کی گئی اور یہ سی پیک کے بلیو پرنٹ کا معاملہ آخر کیا ہے؟

اس جملہ معترضہ کی ادب سے معافی۔ ہم طارق شیراز کے اٹھائے نکتوں پر بات کرکے آج کے موضوع پر دل پشوری کرتے ہیں۔

برادرِ عزیز! اگر ملک میں عوامی جمہوریت ہو تو ان تجاویز پر عمل بس چند منٹوں اور ایک قانون سازی کی مار ہے لیکن یہاں دو مسئلے ہیں پہلا یہ کہ جمہوریت کے نام پر طبقاتی جمہوریت ہے، دوسرا یہ کہ یہ سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ اسی لئے کسی میں یہ جرات نہیں کہ مالکوں کے اخراجات کم کرنے کے بعد یا پہلے اپنے اللوں تللوں پر بھی نظرثانی کرے۔

گلی محلوں اور چوپالوں میں سماعتوں پر دستک دیتا پرانا لطیفہ

’’پوچھا حافظ جی حلوہ کھائیں گے؟ بولے حلوہ بھی نہیں کھاتا تو اندھے کیوں ہوئے‘‘

یعنی ٹھاٹ باٹھ نہیں رکھنے تو سیاست میں کیا لینے آئے ہیں۔ بہرطور آج نہیں تو کل ان معروضات پر غور کرنا ہی پڑے گا۔ حل تلاش کرنا لازمی ہے۔ قرض کی مے کا سرور تو ہوتا ہے لیکن پتہ تب لگتا ہے جب قرضہ لینے والے مکان ضبط کرکے کپڑے بھی اتروالیتے ہیں۔

سادہ لفظوں میں یہ کہ اس بار رعایا کو نہیں بالادست طبقات اور مالکوں کو قربانی دینا ہوگی ورنہ وہ صبح جلد ہی طلوع ہوگی جس کا وعدہ ہے۔ تخت گرائے جائیں گے تاج اچھالے اور چوراہوں پر پھانسی گھاٹ لگیں گے۔

انسانی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ زیردستوں نے جب انگڑائی لی نتیجہ بہت تلخ ہوا۔

خیر اب آیئے اصل موضوع کی طرف۔ وفاقی حکومت نے یوریا کھاد کی نئی رعایتی قیمت کا نوٹیفکیشن صرف 6دن میں واپس لے لیا۔

فقیر راحموں کہہ رہے ہیں ’’شاہ جی، (ن) لیگ کا خمیر کسان دشمنی سے عبارت ہے‘‘۔ اپنے ہمزاد سے عدم اتفاق کے باوجود یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ (ن) لیگ بنیادی طور پر کاروباری طبقے کی جماعت ہے۔ اسے جب بھی اقتدار ملا اس نے زراعت کے مقابلہ میں صنعت کاروں، بڑے تاجروں، بلڈرز اور دوسرے مراعات یافتہ طبقات کے مفادات کا تحفظ کیا یہی اس کا سرمایہ، طاقت اور ووٹ بینک ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت صرف (ن) لیگ کی نہیں بلکہ اتحادیوں کی ہے اس اتحاد میں پی پی پی اور اے این پی بھی شامل ہیں (گو اے این پی نے وزارت نہیں لی) ان دونوں جماعتوں نے یوریا کھاد کی رعایتی قیمت کے نوٹیفکیشن کی واپسی پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟

نیپرا نے گزشتہ روز فیول ایڈجسٹمنٹ کے ماہوار بھتے کے نام پر صارفین سے 51ارب روپے کی وصولی کے لئے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 3روپے 99پیسے منظوری دی۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ یکم جولائی سے فی یونٹ قیمت میں 8روپے اضافہ کے لئے آئی ایم ایف کا دبائو ہے۔

8روپے اضافہ 3قسطوں میں کرنے کا معاہدہ ’’سامراج دشمن‘‘ قائد عمران خان کے دور حکومت میں کیا گیا تھا اب یہ ڈھول حکمران اتحاد کو بجانا ہے اور ’’صلواتیں‘‘ بھی اس کا نصیب۔

منگل کو وزیراعظم کا بیان شائع ہوا کہ عوام کو ریلیف دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ منگل کو ہی یوٹیلٹی سٹورز پر فروخت ہونے والے گھی کی قیمت میں فی کلو 208روپے اور کوکنگ آئل کی قیمت میں فی لٹر 213روپے اضافہ کردیا گیا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ ان سطور میں آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کے حصول کے لئے ہوئے معاہدہ کے وقت ( پچھلے برس ) عرض کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی یہ شرط مان لی گئی ہے کہ مختلف مدوں میں دی جانے والی سبسڈی بتدریج ختم کردی جائے گی۔

ماسوائے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے جسے اس وقت احساس پروگرام کہا جاتا تھا۔

عالمی مالیاتی ادارے سے ہوئے حالیہ مذاکرات میں ادارے کے حکام کا اصرار تھا کہ پہلے معاہدے کی ان شقوں پر عمل کریں جن پر معاہدہ کرنے والوں نے عمل نہیں کیا۔

یہ ڈھول بھی بجانا پڑے گا بلکہ بجنا شروع ہوگیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے لٹر اضافہ، یوٹیلٹی سٹورز پر گھی اور کوکنگ آئل کے نئے نرخ، بجلی کی قیمت میں (بنیادی ٹیرف میں) اضافے کی تیاریاں، یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ٹھنڈا پانی پیجئے، لمبا لمبا سانس لیجئے، وزیراعظم گزشتہ روز ترکی کے تین روزہ دورے پر چلے گئے۔

وفاقی حکومت نے ملک بھر کے بڑے اور پسندیدہ میڈیا ہائوسز کو دورہ ترکی کے حوالے سے نصف صفحہ کے رنگین اشتہارات کا اجرا کیا۔ ان اشتہارات پر سوشل میڈیا پر خوب تنقید ہوئی لوگوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اشتہارات اخبارات کے لئے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں لیکن ایسے وقت میں جب حکومت کے پاس زہر کھانے کو پیسے نہیں ہیں اس اشتہاری عیاشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

اسی طرح منگل کو اعلان کیا گیا کہ حکومت حج پر جانے والوں کو فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے کی سبسڈی دے گی۔ معاف کیجئے گا شوبازئیوں کی ضرورت نہیں۔ حج صاحب استطاعت پر واجب ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر انفرادی مقروض کا حج نہیں ہوتا تو مقروض ریاست کی سبسڈی سے حج کیسے جائز ہوجائے گا؟

( یہ کہانی نہ سنائی جائے کہ سبسڈی کی رقم وزارت مذہبی امور کی بینک بچتوں کے سود کی کمائی یعنی منافع ہے)۔

مہنگائی اور دوسرے مسائل ہیں ان سے کون انکار کرے گا۔ حکومت اگر 81ہزار کے کوٹے میں سے 30یا 31ہزار حاجیوں کو بھی ڈیڑھ لاکھ کی سبسڈی دے تو اصل رقم کا حساب کرلیجئے۔

سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کی یہ رقم، بجلی، پٹرولیم اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر سبسڈی کے طور پر دینے میں کیا امر مانع ہے؟

مارکیٹ میں اس وقت گندم 2700روپے من ہے۔ 25ہزار روپے بنیادی تنخواہ والا نوٹیفکیشن تو جاری نہیں کرسکی حکومت نہ تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافے کے اعلان پر عمل ہوا۔

حاجیوں کو ڈیڑھ لاکھ کی سبڈی کیوں بھئی؟ بہت احترام کے ساتھ عرض ہے ہم ایسے قلم مزدوروں نے ہمیشہ سرکاری حج اور عمرے کی مخالفت کی ان سطور میں اس لئے کہ کم از کم میں اسے ایک طرح کی رشوت ہی سمجھتا ہوں۔ سبسڈی کو رشوت تو نہیں کہہ سکتے لیکن یہ ملکی خزانہ پر بوجھ ہے یہ بوجھ ماچس خریدنے پر ٹیکس دینے والوں کی گردن پر پڑے گا۔

نرم سے نرم الفاظ میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ شوبازیوں کی ضرورت نہیں چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں۔ قرض کی مے پئیں یا حج سبسڈی دیں، فاقہ مسی رنگ نہیں لانے کی۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: