دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ تو سکون ہوا!||رسول بخش رئیس

جمہوری سیاسی پارلیمان کے اندر‘ آئین کی پاسداری اور مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت سے سنورتی اور پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی ہم آہنگی‘ باہمی احترام اور جمہوری اداروں پر اعتماد کی سیاسی ثقافت آگے نہیں بڑھ سکی۔ دنگا فساد جو ہر صبح شام میڈیا پر نمبر بنانے کیلئے لگتا ہے‘

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف والے آئے تو دھرنا دینے کیلئے‘ مگر اپنی پرانی منزل پر پہنچ کر‘ کپتان کی تقریر کے بعد اپنے گھروں کو چلے گئے۔ جو باتیں کہی جا رہی تھیں‘ اچھا ہوا ان پر عمل نہ کیا۔ یہی کہہ سکتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد اس کی گنجائش نہ رہی تھی۔ تصادم اور دنگا فساد کا ماحول جو ہمارے محترم وزیر داخلہ صاحب بنا بیٹھے تھے ‘ان کے منصوبے پر عدالت نے رکاوٹیں ہٹانے کے احکامات جاری کر کے پانی پھیر دیا تھا۔ یہ راستہ وہ خود ہی دے دیتے تو کون سی قیامت برپا ہو جانی تھی‘ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ لاکھوں میں لوگ آ جاتے‘ کچھ دن کسی جگہ جلسہ جما رہتا‘ خبریں یہ چلتیں کہ جم غفیر ہے اور عمران خان کچھ دن تقریروں سے تنگ آ کر واپس گھر کو سدھارتے۔ رانا ثنا اللہ صاحب کو کچھ شہ بھی ملی اور کچھ اپنی وزارت سے کہیں زیادہ اپنا لوہا منوانے کی آرزو اپنے دل میں پالے ہوئے ہیں۔ سیاسی حریفوں کے خلاف سخت گیری‘ دشنام طرازی‘ بدکلامی اور تشدد روا رکھنا ہمارے موجودہ دور کی سیاست میں ” اوصافِ عالیہ‘‘ میں شمار ہوتا ہے‘ ہم سے کہیں زیادہ مہذب معاشروں میں اگر کوئی بدزبانی کا مرتکب ہو تو دوبارہ اس کو وہ فورم‘ جہاں اس نے ایسا کہا ہو‘ میسر نہیں آتا۔ ہمارے ہاں تو موروثی سیاسی خاندانوں نے اس ہنر میں کمال رکھنے والے مردوں اور خواتین کو عہدوں‘ وزارتوں اور اسمبلیوں کی رکنیت سے نواز رکھا ہے۔ رانا صاحب کی وجۂ شہرت ان کی وفاداری ہے کہ ہر برے وقت میں وہ (ن) لیگ اور اس کی خاندانی سیاست کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ ماضی میں پنجاب حکومت میں بھی وزارتِ قانون اور داخلہ کی ”ذمہ داریاں‘‘ نبھاتے ہوئے بھی ان کا کپتان کے جنونیوں کے ساتھ سخت مقابلہ ہوا‘ اور سختی کرنے کیلئے رانا ثنا صاحب سے بہتر کوئی اور امیدوار نظر میں نہیں آتا۔ یہ طے تھا کہ انہوں نے پولیس کو دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کرنا ہے‘ مگر جو کچھ انہوں نے اور پولیس نے ”آزادی مارچ‘‘ والوں کے ساتھ کیا اور جو کچھ سڑکوں اور چوراہوں پر دیکھنے میں آیا‘ آزادیٔ رائے اور جمہوری اقتدار کا مذاق تھا۔
عدالت عظمیٰ کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو ملک اور خصوصاً ہمارے مارچوں کے مارے شہرِ اقتدار کو خون خرابے سے بچانے کیلئے بروقت اور ہر لحاظ سے قابل ستائش فیصلہ آیا۔(ن) لیگ نے جو منصوبے ہم شہریوں کو اپنے گھروں میں محصور اور سارے ملک کی موٹرویز اور شاہراہوں کو بند کر کے ”شرپسندوں‘‘ سے دو‘ دو ہاتھ کرنے کے بنا رکھے تھے ان میں سے ہوا نکال دی۔ زیادہ بولنے والے پریشان دکھائی دیے کہ اب راستے کھول دینے کے بعد نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ راستوں کی رکاوٹیں آزادی مارچ والوں نے اکھاڑ دینی تھیں ‘شمال مغرب سے آنے والوں کیلئے تاریخی طور پر دریاؤں کے پانی‘ جنگلات‘ پہاڑ اور وادیاںساتھ ہو لیتی رہی ہیں۔ دیر لگی مگر رات کے اندھیروں ہی میں کپتان کا کاروان شہرمیں داخل ہو گیا۔ چونکہ فیصلہ ظاہری طور پر اتحادیوں کے حق میں نہ تھا‘ حسب معمول ان میں سے کچھ عدالت پر تنقید کرنے لگے۔ اس بیان کو آپ کیا کہیں گے کہ ” عدالتیں کسی کے دباؤ میں آ کر فیصلے نہ دیں‘‘؟ یہ وہ ہیں جو بڑے عہدوں کے خواب دیکھ رہے ہیں اور باتیں جمہوریت‘ آئین اور قانون کی بالادستی کی کرتے ہیں۔ فیصلے کا دوسرا پہلو زیادہ اہم تھا کہ حکومت جلوس والوں کو متبادل جگہ فراہم کرے اور وہ جلسہ کرنے کے بعد اپنے گھر وںکو چلے جائیں۔ وہ کام جو سرکاری مشینری کو استعمال میں لا کر اور لاٹھی گولی کی منصوبہ بندی سے اتحادیوں کی حکومت کسی صورت میں نہیں کر سکتی تھی‘ عدالت کے حکم نے کر دکھایا۔تحریک انصاف والوں کو بھی پسپائی کا موقع مل گیا۔ اُن کی بھی مئی کے مہینے یہاں لاکھوں لوگوں کو زیادہ دیر تک رکھنے کی پلاننگ ناقابلِ عمل تھی۔ خود سوچیں اگر حکومتیں جلسوں اور جلوسوں کے دباؤ میں تبدیل ہونا شروع ہو جائیں تو کوئی بھی منتخب حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔
ہمیں تو شور شرابے سے اتنی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ شہر چھوڑ کر بھاگنے کی راہ لیتے ہیں‘ اور کہیں دور بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں اور درختوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کسی کو سکون نہیں چاہئے؟ ہمارے شہری اور ہمارا شہر مجبور ہیں کہ کوئی ان کی فکر نہیں کرتا‘ اگر سیاسیوں کو کوئی فکر ہے تو اس کی کہ جو لوٹ مار کی ہے اس کو کیسے ہضم کرنا ہے اور دوسرے اقتدار میں دوبارہ کیسے آنا ہے کہ طاقت اور سیاسی کاروبار چلتا رہے اور اجارہ داری چند گھرانوں کی ہو اور وہ فیصلہ کریں کہ کس کو کس کام پر لگانا ہے۔ ہمارے محترم سیاسی لوگ جو بھی بڑھکیں مارتے رہیں کہ کچھ باتیں تو تاریخ نے طے کر رکھیں ہیں کہ دنگا فساد‘ لڑائی جھگڑے‘ تصادم اور ایک دوسرے کے خلاف تحریکیں چلانے سے کوئی ملک ترقی تو دور کی بات ہے‘ عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست چمکانے کیلئے وہ مشکل مگر ضروری فیصلے نہیں کر سکتے کہ سیاسی حریف انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہمارے گھروں کی بجلی اور گاڑیوں میں پٹرول کیلئے بھی حکومت اربوں کھربوں کے اخراجات برداشت کرے؟ کئی سو ارب روپے ہماری موجودہ حکومت صرف گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ضائع کر چکی ہے ۔ جب وہ حزب اختلاف میں تھے تو عمران خان کو آئی ایم ایف کی غلامی کے طعنے دیتے تھے۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ کوئی بھی ملک ایسی پالیسیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی حماقتیں نہیں ہوتیں۔ معیشت کو سیاسی لڑائیوں سے مکمل طور پر الگ تو نہیں رکھ سکتے مگر جو حشر ہماری سیاسی لڑائیوں کی وجہ سے اس ملک میں ہوا ہے اس کی مثال صرف سری لنکا ہی ہے۔ وہاں کے سب عوامل‘ جیسے چند سیاسی گھرانوں کی اجارہ داری‘ کرپشن‘ ریاستی اداروں پر حکمرانوں کا غلبہ اور پاپولزم ہمارے ہاں بھی خیمے گاڑ چکے ہیں۔یہ صورتحال ہمیں انہی راستے پر لے جا رہی ہے ‘ مگر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عمران خان صاحب کو موقع ملا تو وہ بھی مشکل فیصلے لینے سے گریز کرتے رہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں سیاسی فائدہ نہ اٹھائیں۔ لیڈر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی سیاست کا کیا بنے گا‘ وہ ملک ‘ لوگوں اور آنے والی نسلوں کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ تصادم کی سیاست نے اس ملک کو تباہ کیا ہے۔ ہمارے اور بھی گناہ ہے لیکن سیاسی طور پر اسے کبیرہ گناہ سمجھیں تو غلط نہ ہوگا۔
جمہوری سیاسی پارلیمان کے اندر‘ آئین کی پاسداری اور مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت سے سنورتی اور پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی ہم آہنگی‘ باہمی احترام اور جمہوری اداروں پر اعتماد کی سیاسی ثقافت آگے نہیں بڑھ سکی۔ دنگا فساد جو ہر صبح شام میڈیا پر نمبر بنانے کیلئے لگتا ہے‘ اس نے سیاسی حریفوں کو کھلا میدان فراہم کر رکھا ہے۔ معاشرے پر اس کے سیاسی اور نفسیاتی اثرات کیا مرتب ہوں گے‘ اس کے بارے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ کیا کچھ ہمارے مذہبی‘ سیاسی‘ فرقہ پرست اور قومی اکابرین لانگ مارچوں اور دھرنوں سے حاصل کر چکے ہیں؟ تصویری خبرنامے میں گرجنے کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں۔ یہاں عوامی انقلاب نہ آئے ہیں اور نہ آ سکتے ہیں اور نہ ان کی تمنا دل میں لانی چاہیے‘ بلکہ اب ساری دنیا میں کہیں نہیں آئیں گے‘ جہاںآسکتے تھے وہ آ چکے اور‘ سوائے ایک دو کے سب اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ پاکستان کا مزاج ابھی تک نہ خالصتاً جمہوری ہے نہ آمرانہ‘ اس کے درمیان ہماری تاریخ گھومتی رہی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور ریاست کمزور تو دکھائی دیتے ہیں مگر اتنے کمزور بھی نہیں کہ مارچوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں۔ عدالت یا کوئی ا ور بروقت مداخلت کرے گا‘ اگر سیاسی آگ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے پر گولیاں برساتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ سیاسی لوگ آپس میں جنگ بندی کر کے بقائے باہمی کے اصول طے کریں تاکہ ہم سکون سے جی سکیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author