اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’حقیقی‘‘….آزادی مارچ||حیدر جاوید سید

علی قلی خان کے خاندان نے گندھارا موٹرز والی فیکٹری نہ لگائی ہوتی تو پاکستان میں آج بھی سفر کے لئے تانگے اور مال برداری کے لئے بیل گاڑیاں استعمال ہورہی ہوتیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کے آزادی مارچ سے قبل حسب سابق پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پولیس نے چادر اور چاردیواری کو پامال کیا اس دعوے کو تقویت جسٹس (ر) محترمہ ناصرہ جاوید اقبال کے موقف سے ملی۔ ان کے صاحبزادے ولید اقبال تحریک انصاف کے سینیٹر ہیں۔

اسی دوران یہ اطلاع بھی ملی کہ ماڈل ٹائون لاہورمیں پولیس ریڈ کے دوران مکان کی چھت سے کی گئی فائرنگ میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔ اس مرحوم پولیس اہلکار کے حوالے سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی کا بیان محض افسوسناک ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔

چوہدری صاحب، مہینہ ڈیڑھ مہینہ سے ایسی باتیں کررہے ہیں جن سے ان کی ’’صحت‘‘ کے حوالے سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ ان کے خاندان کو چاہیے کہ کسی اچھے معالج کو دیکھالیں کیونکہ عمر بھر کی ’’وضعداری‘‘ کا ’’بھرم‘‘ ٹوٹ رہا ہے۔

ایک سابق وزیر داخلہ اور ہمارے ممدوح جنرل پرویز مشرف کے رفیق خاص بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کی ’’دکھ بھری داستان‘‘ ویڈیو کے ذریعے پہنچی۔ انہیں انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں اور پولیس گردی پر بڑا دکھ ہے۔ فقیر راحموں کے پرانے ملنے والے ہیں اس لئے ان کے دکھ میں شرکت واجب ہے۔ شاہ جی کمال کے آدمی ہیں ایک خفیہ ادارے (ویسے خفیہ ادارے ہمارے یہاں خفیہ نہیں ہوتے) کے سربراہ اور پنجاب کے سیکرٹری داخلہ کے طور پر انہوں نے انسانی حقوق، شہری و سیاسی آزادیوں کی جس ’’شان کے ساتھ‘‘ درگت بنائی تھی وہ سب ماضی کے قصے ہبں

اب وہ سیاستدان ہیں برسوں سے قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر داخلہ بھی رہے ہیں اس لئے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا حُقہ تازہ رکھنا ان کا فرض ہے۔

ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن کے لئے کسی شاعر نے کہا تھا ’’بغیر آٹے کے بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘۔

وہ اپنے ایکس سروس مین سوسائٹی والے مجاہدین بھی عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ میں ’’خاندانوں‘‘ سمیت شریک ہیں۔

فقیر راحموں نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ آزادی مارچ جب دھرنے میں تبدیل ہو تو ایکس سروس مین سوسائٹی (یعنی سابق فوجی افسران) کے لئے الگ پنڈال بنایا جائے اور اس پنڈال کی حفاظت کی ذمہ داری افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ (جسے ہمارے ہاں افغان جہاد کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا) اور غیرریاستی لشکروں کی دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کے حوالے کی جائے تاکہ ایک لاکھ سے زیادہ مقتولین (اس میں جہاد اور دہشت گردی کا رزق بننے والے دونوں کے خاندان شامل ہیں) کے ورثاء اپنے ’’ان مجاہدین)‘‘ کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کرسکیں۔

ویسے تو ہمیں امید ہے کہ امریکی ڈالروں اور اسلحہ سے ہوئے افغان جہاد اور غیرریاستی لشکروں کے ان پالن ہاروں کے پاس اتنا وافر مال ہے کہ ان کی اگلی سات نسلیں آرام سے ہاتھ پائوں ہلائے بغیر امریکہ کے خلاف جہاد کرسکتی ہیں اور اپنی حفاظت کے لئے بلیک کیٹ نامی امریکی سکیورٹی ایجنسی کی خدمات بھی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں

لیکن فقیر راحموں کا خیال ہے کہ چونکہ ان سابق عسکری نابغوں کی وجہ سے تقسیم ہوئی شہادیوں کی ریوڑیاں کھانے والے خاندانوں کا فرض بنتا ہے کہ آڑے وقت میں ان بزرگوں کی ’’خصوصی‘‘ حفاظت فرمائیں۔

خیر حکومت جانے اور فقیر راحموں ہم اس پھڈے سے دور ہی رہیں تو اچھا ہے۔

البتہ یہ حیرانی ضرور ہے کہ اس ملک کو امریکہ کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ بنانے اور مال کھرا کرنے والے اب خود کو امریکہ مخالف مجاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاد و فساد کے مقتولین کے ورثاء کو چھوڑ کر ایک بڑا طبقہ انہیں محسن قوم و ملت بھی سمجھتا ہے۔

چند دن ہوتے ہیں ایسے ہی ایک محسن قوم و ملت جو ریٹائرمنٹ کے بعد سے پراپرٹی ڈیلر بن کر لوگوں اور حکومت کو خوب چونا لگاتے رہے، سوشل میڈیا پر آزادی کے متوالے اور اپنے سابق ادارے کے ناقد بن کر ابھرے چند ہی دنوں میں انہوں نے بھائی صابر شاکر داعشی اینکر اور اوریا مقبول جان کو پیچھے چھوڑدیا تھا۔

ایک دن اس پراپرٹی ڈیلر مجاہد کی بیگم نے سوشل میڈیا پر لکھا، میرے شوہر نامدار کو پچھلی رات کالی گاڑی والے بھائی صاحبان لے گئے ہیں۔

اس کے بعد ان ریٹائر میجر صاحب سے اتحاد یکجہتی کا ’’ہڑ‘‘ آگیا۔ ہر طرف شوروغل تھا۔ اس دوران ہم نے ایک جذباتی دوست سے کہا یار راجہ صاحب برادری برادری کھیل رہے ہو کاش کبھی تم نے ایسا ہی احتجاج مختلف النسل و مسلک کے گمشدہ افراد کے لئے بھی کیا ہوتا۔

بولے، میجر صاحب نے مادر وطن کے دفاع کے لئے جان ہتھیلی پر دھرے رکھی۔

کچھ دیر بعد میجر صاحب سوشل میڈیا پر نمودار ہوئے اور بولے ’’میں خیریت سے اپنے خاندان کے پاس برطانیہ پہنچ گیا ہوں، پاکستان میں میری بوڑھی والدہ صاحب کو کوئی تکلیف پہنچی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔

جنم دینے اور پائوں پائوں چلنے میں مدد دینے والی دھرتی ماں دو مائوں کو چھوڑ کر اگلا تیسری امی برطانیہ کے ہاں مقیم بیگم صاحبہ کے پاس پہنچ گیا

یہاں سوشل میڈیا پر موجود ان کا ’’ٹبر‘‘ بلندبانگ دعوے کرتا الزام لگاتا رہ گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حضرت ایکس سروس مین سوسائٹی کے کوئی ترجمان ورجمان بھی تھے۔ معاف کیجئے گا بات کہاں سے شروع ہوئی اور کدھر کو چلی گئی۔ پریشان نہ ہوں، اردگرد کے حالات، ٹھنڈی میٹھی خبروں اور سوشل میڈیا پر اٹھائی گئی ’’اَت‘‘ کی وجہ سے بندہ اِدھر اُدھر ہو ہی جاتا ہے۔

چند سابق عسکری نابغوں کی ایک تصویر کچھ دیر قبل دیکھی وہ آزادی مارچ میں شرکت کے جذبہ سے سرشار تصویر بنوارہے تھے۔

اس تصویر کے نیچے ایک دل جلے نے لکھ دیا، ’’پیارے انکلز یہ جو تمغے آپ لوگوں نے سینوں پر سجارکھے ہیں یہ کس جنگ میں کارنامے دیکھانے پر ملے تھے؟‘‘

اب دیکھیں کیا زمانہ آگیا ہے نئی نسل اور کچھ پرانے لوگ بھی ان بزرگ عسکریوں کی خدمات سے واقف نہیں۔ آئی ایس پی آر کو چاہیے کہ پچھلے پچاس برسوں کے دوران ریٹائر ہونے والے درجہ اول، دوئم اور سوئم کے افسروں کی عالی شان خدمات اور پاکستان کو امریکہ کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ بنواکر مال پانی کمانے والے ان صاحبان کے سوانحی خاکے جمع کرکے ایک کتاب شائع کروائے تاکہ لوگ اور خصوصاً نئی نسل کو پتہ چلے کہ انہوں نے کیا کیا نہیں کیا ارو وہ بھی کیا جو ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔

بزرگ عسکریوں کی ایک تصویر میں سابق جنرل علی قلی خان بھی دیکھائی دیئے انہیں صحت مند دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔

پہلے فوجی آمر اور خودساختہ فلیڈ مارشل جنرل ایوب خان کے سمدھیانے سے ان کا تعلق ہے باقی کی باتیں رہنے دیجئے وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں ضروری نہیں کہ تاریخ کا جو حصہ ہمیں پسند ہو آپ کو بھی اچھا لگے۔

علی قلی خان کے خاندان نے گندھارا موٹرز والی فیکٹری نہ لگائی ہوتی تو پاکستان میں آج بھی سفر کے لئے تانگے اور مال برداری کے لئے بیل گاڑیاں استعمال ہورہی ہوتیں۔

لال حویلی والے شیخ رشید اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے درمیان مکالموں کا تبادلہ پچھلے چند دن سے جاری ہے

اس دوران ایک خبر یہ آئی کہ شیخ الاسلام مفسر قرآن قبلہ ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری نے عمران خان کے لانگ مارچ اور باقی ماندہ پروگرام سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ان کے اس اعلان پر رحیق عباسی کے ارمانوں پر اوس پڑگئی چلیں یہ ان کا مسئلہ ہے۔

ادھر ’’پائوڈین‘‘ سے ٹوٹا ہوا بازو جوڑنے والے سائنسدان چودھری پرویزالٰہی نے خبر دی ہے کہ عمران خان اور فوج کے درمیان رابطے بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

اچھی بات ہے فوج اپنی ہی ہے کون سا واہگہ کے دوسری طرف کی ہے لیکن کیا عمران خان میر جعفر اور میر صادق سے رابطے پر راضی ہوگئے ہیں؟

یہ بہت اہم سوال ہے۔ ویسے تو خان صاحب یوٹرن کے ماہر ہیں۔ ایک اور یوٹرن لیا تو حیرانی نہیں ہوگی ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم اس میں سے بھی ’’خیر اور حب الوطنی‘‘ کے پہلو تلاش کرلے گا۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: