اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روہی پر اللہ کی رحمت||ظہور دھریجہ

خواجہ فریدؒ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے عین عروج کے دور میں ’’اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے‘‘ کا پیغام دے کر خود کو حریت پسند شعراء کی فہرست میں شامل کرایا ہے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکمرانوں کو ترس نہیں آیا، اللہ تعالیٰ نے رحمت بھیج دی ، چولستان کے مختلف علاقوں میں بارش ہوئی ہے اور زندگی کے آثار واپس آ گئے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ بارش چولستان کے تمام علاقوں میںنہیں ہوئی اور مسائل اب بھی موجود ہیں مگر جہاں جہاں بارش ہوتی ہے تو وہاں جشن کا سماں ہوتا ہے، چولستان کے باسیوں کی عید ہو جاتی ہے، خوشی کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے، سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ فریدؒ نے سترہ سال چولستان میں گزارے، خواجہ فریدؒ نے روہی کے ذرے ذرے سے محبت کر کے روہی کو امر کر دیا ہے، چولستان میں جب بارش آئے تو کیسا منظر ہوتا ہے ، کیسی کیفیت اور کیسا سرور ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ آپ نے دیوان فرید کی بائیس کافیوں میں روہی (چولستان) کا ذکر کیا۔ دنیا کا کوئی بھی بڑا انسان اس وقت تک بڑا نہیں ہو سکتا جب تک اپنی مٹی کی مہک کو اپنی سانسوں کا حصہ نہ بنائے اور بڑی شاعری صرف ماں بولی میں ہو سکتی ہے، ترجمہ مفہوم کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا، تاہم خواجہ فریدؒ کی ایک کافی اور اس کا ترجمہ دیکھئے جس میں چولستان میں بارش کے منظر اور اس کی کیفیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے: روہی وٹھڑی ٹوبھا تار وے آ مل توں سینگا یار وے تھئے تھلڑے باغ بہار وے چودھار گل گلزار وے کتھ چنڑکیں دے چھنکار وے کتھ مٹیاں دے گھبکار وے ڈینھ رات مینگھ ملہار وے وچ پکھیا دے چوہنکار وے کتھ گاج دے دھدکار وے کتھے کھیمن دے لسکار وے پئے ٹھہندے ہار سنگار وے سرخی تے کجلہ دھار وے آئے سکھ سہاگ دے وار وے گئے ڈکھ وی آر وے پار وے سینگیاں وسن گھر بار وے لا گل سمہن دلدار وے ہک میں رُلی اوازار وے ڈکھ سول نال وپار وے تو بن فرید خوار وے رت ہنجڑوں روون کار وے ول جلد موڑ مہار وے نتاں مر ویساں وارو وار وے (ترجمہ)میرا دوست ، میرا محبوب ،میرے سنگی، چولستان میں باران رحمت ہوئی ہے، بارش سے ٹوبھے بھر گئے ہیں ،ہر طرف سبزہ اور ہریالی ہے، اس سے زیادہ سہانا اور خوبصورت موسم کوئی نہیں ہے، تم ملنے کیلئے آ جائو ۔چاروں طرف باغ بہاری اور گل گلزاری ہے، روہی کا تھل خوبصورت منظر پیش کر رہا ہے، جانوروں کے گلوں میں گھنٹیاں ہیں جس سے خوبصورت آوازیں آ رہی ہیں، ہر طرف کیف اور سرور ہے، لسی بلونے کی آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے، دن رات برکھا اور بادل کی بہار ہے، لطف اندوز موسم کا نظارہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے اور اوپر سے پرندوں کی چہچہاہٹ سے خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔ کہیں بجلی کی چمک ہے اور کہیں بادلوںکی گھن گرج ہے ۔ اس سہانے اور خوبصورت موسم میں زیور اور ہار سنگھار بھلے لگ رہے ہیں، سرخی اور کجلے کی دھار نے اپنے رنگ جما رکھے ہیں، سکھ سہاگ کے دن آئے ہیں اور دکھ دور چلے گئے ہیں۔ اے محبوب !سینگیاں یعنی ہم عمر جولیاں اپنے اپنے دلداروں کیساتھ سوئی ہوئی ہیں، ایک میں ہوں کہ میں تیری جدائی میں رل گئی ہوں اور دکھ درد سے پالا پڑا ہوا ہے۔ اے محبوب ! تجھ بن فرید خوار ہے اور تمہاری جدائی میں خون کے آنسو روتا ہے، تو جلدی آ ، موہار روہی کی طرف پھیر دے ورنہ تمہاری جدائی میں میں جیتے جی مر جائوں گی۔ خواجہ فریدؒ کو صوفی اور مناظر فطرت کا شاعر کہا جاتا ہے،خواجہ فریدؒ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے عین عروج کے دور میں ’’اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے‘‘ کا پیغام دے کر خود کو حریت پسند شعراء کی فہرست میں شامل کرایا ہے۔ خواجہ فریدؒ کو کسی ایک نقطہ نظر یا زاویہ نگاہ سے دیکھنا غلطی ہو گی، اُن کی شاعری کے اَن گنت حوالے ہیں، اُن کو ہم چولستان کا شاعر بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی شاعری میں روہی چولستان کا بہت تذکرہ ہے، خواجہ فریدؒ کا ایک معتبر اور بڑا حوالہ اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کا حوالہ ہے، اُن کی شاعری میں جگہ جگہ ماں دھرتی سے محبت کے حوالے ملتے ہیں جس کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ وسیب قومی شاعر ہیں، یہ بھی دیکھئے کہ گل اور گلزار سے سب محبت کرتے ہیں مگر خواجہ فریدؒ نے اپنی سر زمین کی گردوغبار اور کانٹوں سے بھی محبت کی ہے: ہر ہر قطرہ آب ہے کوثر گرد غبار ہے مشک تے عنبر کرڑ کنڈا شمشاد صنوبر خار دی شکل بہار دی ہے وسیب کے دو مشہور صحرا روہی (چولستان) اور تھل میں ریت کے پہاڑ ہیں، خواجہ فریدؒ نے ریت کے پہاڑوں کو ’’کوہ طور‘‘ سے تشبیہ دے کر ریت کے ان پہاڑوں کے تقدس میں اضافہ کیا ہے، اس کے ساتھ پہاڑوں کے درمیان والے حصے کو خواجہ فریدؒ نے وادی ایمن کہا ہے ، چند لائنیں دیکھیں: وادی ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہن کوہ طور خواجہ فریدؒ کو وسیب کے پرندوں اور حیوانوں سے بھی محبت کرتے تھے، انہوں نے ایک شعر میں یہ کہا کہ بھینسوں کے قدموں کی جو دھول ہے وہ میری آنکھوں کا سرمہ ہے، شعر دیکھئے: پاہ ہنباہ تے دھوڑ مِہیں دی ڈسدا نور اکھیں دا سرائیکی وسیب کے علاقے چولستان میں ایک خود رو بوٹی پیدا ہوتی ہے اُس کا نام ’’قطرن‘‘ ہے ، یہ خوشبودار بوٹی ہے، جب چولستان میں بارش ہو اور یہ بوٹی اُگ آئے تو ہر طرف خوشبو کی مہکار ہوتی ہے، عرب شہزادوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب چولستان میں شکار کیلئے آتے ہیں تو یہ بوٹی جو کہ گھاس کی شکل میں ہوتی ہے کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس سے خوشبو کشید کراتے ہیں : خوش قطرن عطروں بھنڑی کھا ساگ پُسی دی پنڑی نبھ ویندے وقت سکھیرے

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: