مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لبرل ہو؟ اقلیّت ہو!||ڈاکٹر مجاہد مرزا

اس جماعت کے نزدیک ہر وہ شخص ان کے اپنے معانی میں لبرل اور سیکیولر ہے جو ان سے اختلاف کرتا ہے اور ان کے فسطائی رویوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے لیکن یہ جان لیں کہ ان کے مقابلے میں غامدی اور الطاف حسین کی زیادہ پذیرائی ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نفرت اور تشدد کی سیاست کی شروعات کرنے والی طالبعلم تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کی سرپرست سیاسی مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن نے یہ کہہ کر کہ "لبرل کہلانے کے شوقین لوگ اقلیت میں اپنا نام لکھوائیں” مجھے مجبور کر دیا ہے کہ بچپن میں والدہ سے سنی اس کہانی کی نفی کروں جس میں گیدڑماں کے بچے چیختے تھے "پدرم سلطان بود!” یعنی میرا باپ بادشاہ تھا تو گیدڑ ماں ان کو تلقین کیا کرتی تھی،”ترا چہ؟” یعنی چھوڑو پرانی بات کو یہ بتاؤ کہ تم کون ہو اور کیا ہو۔
تو جناب میری نانی کے بڑے بھائی کا نام مولانا مولوی مرزا محمد نذیر عرشی تھا، جن کے مرتب کردہ خطبات عرشی دنیا بھر کی مساجد میں پڑھے جاتے ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی کی کئی جلدوں میں لکھی شرح مفتاح العلوم مستند دستاویز ہے۔ ان کی حکمت بارے کتابیں استاد عطاری، بیاض کریمی و دیگر آج بھی اس قدر فرسودہ نہیں ہوئیں۔ میرے ماموں کا نام مولانا مولوی محمد فضل قدیر ظفر ندوی تھا جو اسلامی علوم پہ سند تھے۔ یاد رہے مولانا مودودی کے علاوہ ان کے بعد آنے والے لوگ یعنی میاں محمد طفیل، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کوئی بھی مستند اسلامی سکالر نہیں ہے۔ مولانا عرشی کے سات بیٹے ان کی آنکھوں کے سامنے مارے گئے تھے، مولانا ان کی لاشیں لٹاتے رہے تھے ، آخر میں ان کی اہلیہ نے،جو میری بڑی پھوپھی تھیں، ان سے کہا تھا، "مولوی صاحب! اپنی کمر دیکھی آپ نے” ان کی کمر میں بھالے کا شدید گھاؤ تھا، انہوں نے بھی بیٹوں کی لاشوں کے ساتھ لیٹ کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی تھی۔ ظاہر ہے میں نے انہیں نہیں دیکھا لیکن میری والدہ جو خود بھی اپنے تئیں بہت پڑھنے والی اور دین سے آگاہ خاتون تھیں، نے ہمیں یہ سب کچھ بتایا تھا۔ یہ بھی بتایا تھا کہ نعرہ ہوا کرتا تھا "مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ” ظاہر ہے اس نعرے میں لبرل اور بنیاد پرست کی تخصیص نہیں تھی بلکہ لطیفی جیسے کئی باقاعدہ کمیونسٹ تحریک پاکستان میں نہ صرف شامل تھے بلکہ بہت فعال بھی تھے۔ یاد رہے یہ وہ کمیونسٹ تھے جو مذہب کو نہیں مانتے تھے لیکن جانتے تھے کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے مانگا جا رہا ہے، اسلام کے نام پہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کا مذہب اسلام ہی ہوگا، اگر وہ مذہب سے بیگانہ بھی ہو تب بھی مذہب اس کا ورثہ تو ہوگا ہی۔ میرے اپنے ماموں فضل قدیر ندوی صاحب جو تحریک خلافت میں فعال تھے اور پھر مسلم لیگ کے اہم رکن تھے، کے ساتھ حصول علم کے لیے بات ہوا کرتی تھی لیکن میں نے ان کی زبان سے کبھی نہیں سنا کہ پاکستان اسلامی نظام "نافذ” کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، انہوں نے ہمیشہ یہی بتایا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اسلاف کو میں نے اس لیے یاد کیا کہ پاکستان کے لبرل لوگوں کی اکثریت عیسائیوں، یہودیوں، ہندووں، سکھوں یا کسی اور مذہب کے ماننے والوں کی اولاد نہیں بلکہ مسلمانوں کی اولاد ہیں جن کے اسلاف نے اس ملک کے لیے کرب سہے تھے، بہت زیادہ قربانیاں دی تھیں اور اب ہمیں مسلمانوں کی ایک اقلیتی سیاسی جماعت کے امیر ا اپنے خالصتا” فسطائی لہجے میں اقلیت میں تبدیل ہونے کی دھمکی آمیز تلقین کر رہے ہیں۔ ان کا کیا جاتا ہے کہ کل یہ بریلیوں کو، پھر شیعوں کو اور بالآخر دیوبندیوں کو بھی اقلیت میں تبدیل کرنے کی دھمکی دے دیں۔
اس قسم کی باتیں کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کا ایجنڈا وہی ہے جو تحریک طالبان پاکستان کا۔ یہ لوگ طاقت کے بل بوتے پر تشدد اختیار کرکے اپنی مرضی کے اصول و ضوابط پہ عمل کروانا چاہتے ہیں۔ سید منور حسن کو ایسا نفرت انگیز فقرہ کہتے ہوئے قطعی خجالت محسوس نہیں ہوئی جبکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں ان کی جماعت کی پذیرائی کس قدر ہے۔ اس کے برعکس لبرل خیال کی جانے والی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی تحریک اور عوامی نیشنل پارٹی کی پذیرائی کس قدر فزوں تر ہے۔ درست کہا جاتا ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے، سید منور حسن صاحب نے کیا یہ بات پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نہین کہی جو ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس جماعت کے لوگوں کو تو گیدڑ کی طرح ڈنڈے اور اینٹں مارنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، بس ان کو آئینہ دکھا دینا چاہیے اگر تھوڑی سی بھی حمیت ہوئی تو خود ہی منہ کر جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے اندازے ہمیشہ ہی غلط ثابت ہوتے رہے ہیں ۔ یہ ہمیشہ ہی فوج کے کاسہ لیس رہے، کہیں ‘الشمس‘ اور ‘البدر‘ جیسی فسطائی تنظیمیں بنا کر اپنے ہی ہم قوم لوگوں کی گردنیں کاٹتے رہے اور تو اور آبروریزی بھی کرتے رہے، جس کا خمیازہ بنگلہ دیش میں آج بھگت رہے ہیں۔ کبھی ضیاّالحق جیسے مردود آمر کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے۔ کہیں افغانستان میں نام نہاد مجاہدین کی حمایت و معاونت کرتے رہے۔ آج بھی ان کے کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
جی ہاں! جماعت اسلامی میں لبرل مزاج مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مولانا مودودی جس شخصیت کو اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پلاتے تھے، اس کو جماعت اسلامی سے مودودی صاحب نے مجبور ہو کر نکالا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے انہوں نے میرے سامنے جاوید احمد سے یہی کہا تھا کہ وہ میاں طفیل اور ان کے حامیوں کے سامنے مجبور ہیں۔ یہی جاوید احمد جماعت سے نکلنے کے بعد جاوید احمد غامدی کہلائے تھے۔ آج وہ ملک سے باہر ہیں۔ غامدی کی کہانی نئی نہیں ہے، ان سے پہلے ان کے استاد امین احسن اصلاحی کے ساتھ اس جماعت نے کیا کیا تھا؟
اس جماعت کے نزدیک ہر وہ شخص ان کے اپنے معانی میں لبرل اور سیکیولر ہے جو ان سے اختلاف کرتا ہے اور ان کے فسطائی رویوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے لیکن یہ جان لیں کہ ان کے مقابلے میں غامدی اور الطاف حسین کی زیادہ پذیرائی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ خود اپنے "ویٹیکن سٹی” یعنی "منصورہ” تک محدود ہو کر رہ جائین گے۔ ویٹیکن کے پاس تو صدیوں کی وراثت پر مبنی عجائب گھر ہے، جسے سیاحوں کی کثیر تعداد دیکھنے جاتی ہے، ان کے منصورہ میں تو یہ خود ہی "پدرم سلطان بود” کہتے پھریں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: