مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پشاور کہانی: آپ اپنی تلاش ہے مجھ کو||شبیر حسین امام

پشاور کی ضرورت ایسے ’وسیع البنیاد ترقیاتی عمل‘ کی ہے‘ جسے سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی مفادات کی عینک لگا کر نہ دیکھیں یعنی پشاور کی خدمت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کی جائے تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا پائیدار حل تلاش نہ کیا جا سکے۔

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میئر پشاور ’حاجی زبیر علی‘ نے پشاور کے ٹریفک مسائل حل کرنے کے لئے ”ٹھوس اقدامات“ کا عندیہ دیتے ہوئے متعلقہ حکومتی اداروں سے تجاویز (مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات) طلب کی ہیں اُور ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ”پشاور کی تعمیروترقی اُور خوبصورتی درحقیقت خیبرپختونخوا کی تعمیروترقی اُور خوبصورتی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔“

قبل ازیں (اپریل دوہزاربائیس کے آخری ہفتے میں) اُنہوں نے خواجہ سراؤں کی تعلیم و تربیت کے لئے الگ ادارے کے قیام اُور نشے کے عادی افراد کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے لئے ’سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ‘ سے تجاویز بھی طلب کر رکھی ہیں تاہم جس تیزی سے مسائل کی نشاندہی اُور اعلانات ہوئے ہیں‘ اُس تیزی سے عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے اُور یہی پشاور کے ”مسائل کی بنیادی جڑ“ ہے کہ یہاں تعمیروترقی کا عمل ایک تو فیصلہ سازوں کی ذاتی ترجیحات اُور دلچسپی کے گرد گھومتا رہتا ہے اُور دوسرا بیک وقت ایک سے زیادہ منتخب و غیرمنتخب فیصلہ ساز کسی ایک ہی مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ماضی میں کی گئی ایسی ہی کوششوں پر نظر نہیں کرتے اُور نہ ہی اداروں کی کارکردگی کا احتساب کرتے ہیں‘ جس کے بغیر تعمیروترقی اُور خوبصورتی نہ تو پائیدار ہو سکتی ہے اُور نہ جامع اُور مستقبل کی ضرورتوں سے ہم آہنگ۔ بہرحال و بہرصورت پشاور کا کوئی بھی مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک اُس کے ماضی و مستقبل پر نظر نہ کی جائے۔ ماضی پر نظر کرنے کا مطلب اُس کے سبب کا سدباب جبکہ مستقبل پر نظر رکھنے سے یہاں مراد بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات ہیں۔

حاجی زبیر علی نے پندرہ مارچ دوہزاربائیس کے روز ’میئر پشاور‘ کے عہدے کا حلف اُٹھایا اُور یہ تقریب کمشنر پشاور کے دفتر میں منعقد ہوئی جبکہ موزوں مقام ضلعی اسمبلی کی عمارت تھی اُور اگر حلف برداری (پہلے دن کا آغاز) ہی افسرشاہی کے جھانسے میں آئے بغیر کیا جاتا تو ایک واضح پیغام دیا جا سکتا تھا کہ آج کے بعد پشاور کے مسائل پر سرکاری اداروں کے اعدادوشمار کی گرد پڑنے نہیں دی جائے گی اُور آرام دہ ائرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر پشاور سے متعلق فیصلہ سازی خاطرخواہ کامیاب بھی نہیں ہوگی۔ ذہن نشین رہے کہ میئر پشاور کا عہدہ 7 تحصیلوں پر مشتمل ہے جس کے لئے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات پشاور سمیت سترہ اضلاع میں 19 دسمبر 2021ء کے روز ہوئے تھے۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت میئر پشاور جو کہ تحصیل پشاور کا سربراہ (چیئرمین) ہونے کے ساتھ تحصیل پشتخرہ (چیئرمین ہارون صفت)‘ تحصیل متھرا (چیئرمین فرید اللہ خان)‘ تحصیل شاہ عالم (چیئرمین کلیم اللہ)‘ تحصیل چمکنی (ارباب عمر)‘ تحصیل بڈھ بیر (چیئرمین مفتی طلا) اُور تحصیل حسن خیل (چیئرمین عبدالحفیظ آفریدی) میں ترقیاتی کاموں اُور بلدیاتی نظام کی فعالیت پر نظر رکھتا ہے۔ اِس لحاظ سے ”میئر پشاور“ کے عہدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بلدیاتی نظام میں پشاور کو 7 تحصیلوں‘ 9 ویلیج کونسلوں اُور 121 نیبرہڈ کونسلوں (دیہی علاقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن پشاور کے شہری و دیہی علاقوں کی یہ تقسیم انتہائی واضح ہونے کے باوجود بھی ترقیاتی عمل کے لئے درکار مالی وسائل خاطرخواہ فراہم نہیں کئے جاتے اُور آج بھی پشاور کے لئے ترقیاتی مالی وسائل کا بڑا حصہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹرز کی صوابدید پر خرچ ہوتا ہے جبکہ اشد ضرورت ”بلدیاتی نظام کو مضبوط و فعال کرنے کی ہے۔“ اُور بلدیاتی انتخابات کے بعد کس سیاسی جماعت کی جیت ہوئی ہے یہ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچتے ہوئے پشاور کی قسمت کے فیصلے اِس کے موجودہ بلدیاتی نمائندوں کو سونپ دینے چاہیئں۔ حاجی زبیر علی کا تعلق ’جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 24 تحصیلوں کی میئر‘ چیئرمین شپ حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے حصے میں 17 تحصیلوں کی میئر اُور چیئرمین شپ آئیں تھیں جبکہ 10 نشستوں پر آزاد‘ 7 پر عوامی  نیشنل پارٹی‘ 3 پرمسلم لیگ نواز‘ دو دو نشستوں پر جماعت اسلامی و تحریک اصلاحات پاکستان جبکہ ایک نشست پر پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز کے نامزد بلدیاتی اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے اُور اِن انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع دن (اُنیس دسمبر دوہزاراکیس) سے کہا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتی تفریق کی وجہ صوبائی حکومت اُور پشاور سمیت دیگر تحصیلوں کے نگرانوں کے درمیان وہی فاصلہ برقرار رہے گا‘ جس کا مشاہدہ و نظارہ ماضی میں کیا جا چکا ہے اُور اِس سے اگر کسی کا نقصان ہوا تو وہ صرف پشاور تھا۔

پشاور کی ضرورت ایسے ’وسیع البنیاد ترقیاتی عمل‘ کی ہے‘ جسے سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی مفادات کی عینک لگا کر نہ دیکھیں یعنی پشاور کی خدمت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کی جائے تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا پائیدار حل تلاش نہ کیا جا سکے۔ حاجی زبیر علی نے بطور ’میئر پشاور‘ حلف اُٹھانے کی تقریب کے فوراً بعد‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں پشاور کے جن مسائل کا ذکر کیا اُس جامع فہرست کے بعد کسی سوچ بچار کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن صرف اُور صرف عمل درآمد (ایکشن پلان) کی ضرورت ہے۔ حاجی زبیر علی نے کہا تھا کہ ”پشاور کو انواع و اقسام کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ٹریفک کا بے ہنگم نظام‘ بغیرمنصوبہ بندی و منظوری ترقی‘ بجلی (برقی رو) کا طویل تعطل‘ پینے کے صاف پانی کی قلت‘ پینے کے پانی کی تقسیم کا نظام‘ بڑھتی ہوئی آبادی اُور کم وسائل شامل ہیں۔“

”پشاور کے مسائل“ اُور ”پشاور کے وسائل“ مربوط نہیں اُور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور کے وسائل کو اِس سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جاتی کہ ہر تحصیل کی آمدنی صرف اُور صرف اُس تحصیل پر خرچ ہو۔ پشاور کے مرکزی شہر کے وسائل پر دیہی علاقوں کا بوجھ ناقابل برداشت اُور غیرمنطقی ہونے کے ساتھ پشاور کے ساتھ ظلم بھی ہے۔ انتہائی بنیادی ضرورت یہ ہے کیونکہ ”پشاور سٹی تحصیل“ کی آمدنی جو کہ دیگر تحصیلوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ ہے لیکن اُسے دیگر چھ تحصیلوں پر تقسیم کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی ایک بھی تحصیل میں شہری بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ ’مثالی شکل و صورت اختیار نہیں کر پاتا۔ وقت ہے کہ تحصیلیں اپنی آمدنی و اخراجات میں توازن کے ساتھ ”پشاور شہر“ پر اپنا بوجھ (مالی انحصار) کم کرنے کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ گنجان آباد شہر کے مسائل بحرانی شکل اختیار کر چکے ہیں اُور اُن کا حل ایک ایسے مربوط ترقیاتی عمل سے مشروط ہو چکا ہے‘ جس میں پشاور مرکزی نکتہ ہو اُور یہ شہر (دانستہ یا غیردانستہ طور پر) مزید نظر انداز نہ رہے۔ ”آپ اپنی تلاش ہے مجھ کو …… ہوں عجب مشکلات میں تنہا (جمیل یوسف)۔“

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: