مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل میڈیا پالیسی: موثر ہم آہنگی‘ نگرانی اُور نفاذ||شبیر حسین امام

صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ سرکاری ملازمین سیاسی سوچ اُور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنے محکمے کے مفاد بارے سوچیں۔

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غیرذمہ دارانہ اظہار رائے اُور بالخصوص اِس مقصد کے لئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال باعث تشویش ہے‘ جس کی اصلاح کی کوشش ایک ایسے مرحلے پر کی جا رہی ہے جبکہ خرابی کی جڑیں بہت دور تک پھیل چکی ہیں۔ بہرحال اطلاعات کے مطابق ”محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اپنے ملازمین کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے جو سوشل میڈیا کا وسائل استعمال کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ یا مخالفانہ انداز میں تبصرے کرتے ہیں۔ ایسے ملازمین کے خلاف محکمانہ کاروائی کرنے اُور ’سوشل میڈیا‘ پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔“ بنیادی طور پر یہ ضرورت اِس لئے پیش آئی کیونکہ ایک تو محکمے کی حکمت عملیوں کی رازداری نہیں رہتی اُور دوسرا جو ملازمین کسی بھی وجہ سے حکومتی حکمت عملیوں پر تنقید کرتے ہیں وہ اپنے دلائل میں سرکاری دستاویزات بنا سیاق و سباق پیش کرتے ہیں جن کی وجہ سے عوام الناس میں تشویش پھیلتی ہے اُور حکومت پر دباؤ بنتا ہے اُور کوئی بھی حکمت عملی نافذ ہونے سے پہلے ہی واپس لینا پڑ جاتی ہے اُور حقیقت یہی ہے کہ اِس قسم کا طرزعمل ’سوشل میڈیا‘ کا غلط استعمال ہے۔ ایسے ملازمین کے خلاف کاروائی ملازمتی قانون کے تحت کی جائے گی جو محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1987ء کہلاتا ہے اُور اِس قانون کے مطابق صحت کی سہولیات اور دفاتر میں اپنی سوشل میڈیا پالیسی کی ”موثر ہم آہنگی‘ نگرانی اور نفاذ“ یقینی بنانے کے لئے ”سوشل میڈیا مانیٹرنگ یونٹ(SMMU)“ قائم کیا گیا ہے۔ ایس ایم ایم یو (اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ) کی نگرانی (منتظم) ایڈیشنل سیکرٹری ہوں گے جبکہ اِس کے دیگر اراکین میں ڈپٹی سیکرٹری انتظامیہ‘ ڈپٹی سیکرٹری (قانونی چارہ جوئی)‘ ڈائریکٹر (انتظامیہ) اور ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر (ہیومن ریسورس) اور ڈپٹی ڈائریکٹر (آئی ٹی) سمیت محکمہ صحت کے سیکشن آفیسر (جنرل) بھی شامل ہوں گے۔

سیکرٹری صحت کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے (نوٹیفکیشن) میں ’ایس ایم ایم یو‘ سے متعلق کہا گیا ہے کہ ”نوتشکیل شدہ یونٹ محکمہ صحت کے ملازمین کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا اُور یہ بنیادی طور پر سرکاری ملازمین کی اُن سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا‘ جو محکمہ صحت سے متعلق اُن کے تبصرے یا پیغامات کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ’ایم ایم ایم یو‘ سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق قواعد کی پاسداری کے لئے ضلعی صحت افسران‘ میڈیکل سپرنٹنڈنٹس‘ مختلف ڈائریکٹرز اور دیگر فیلڈ دفاتر کے ساتھ رابطہ قائم کرے گا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کئے گئے پیغام کے مندرجات کا جائزہ باقاعدگی سے لیا جائے گا اور اس بات کا تعین بھی کیا جائے گا کہ کون کون سے ملازمین نے حکومتی اقدامات یا صحت سے متعلق اصلاحات پر تنقید کی اُور حکومت مخالف سیاسی بیانیئے کا حصہ بنے۔

صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ سرکاری ملازمین سیاسی سوچ اُور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنے محکمے کے مفاد بارے سوچیں۔

ملازمین کی تمام تر توجہ اُور وسائل محکمہ صحت کی بہتری کے بارے میں مرکوز ہونے چاہیئں اُور یہ کہ وہ بالخصوص افواہیں پھیلانے سے گریز کریں۔ اِن اہداف کے حصول کے لئے ’محکمہ صحت‘ کا ایک خط بعنوان ”ایم ٹی آئیز“ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور ڈیپوٹیشن“ سے متعلق جاری کیا گیا ہے جس میں خیبرپختونخوا کے تمام گیارہ ’ایم ٹی آئیز‘ کو تحریراً مطلع کیا گیا ہے اُور انتظامی نگرانوں کو تاکیدو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی زیرنگرانی میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی سختی سے نگرانی کریں۔ مذکورہ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ایم ٹی آئی‘ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1987ء کے پابند ہیں اُور اِنہی قواعد کے تحت اُنہیں ملازمت دی گئی ہے اُور یہ مذکورہ متعلقہ قوانین‘ قواعد و ضوابط پر لازماً عمل درآمد کریں چونکہ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد متعلقہ ایم ٹی آئی میں بورڈ آف گورنرز کے براہ راست کنٹرول کے تحت ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر کام کرتی ہے‘ اِس لئے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال میں ان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کے پیشہ ورانہ طرز عمل کی بھی سختی سے نگرانی کی جائے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے حوالے سے محکمہ صحت کے عہدیداروں کو عمومی ہدایات دی گئی ہیں جبکہ ایم ٹی آئیز (خودمختار طبی سہولیات کے مراکز) کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ان ہدایات اور قواعد کی سراسر خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے سرکاری ملازمین کے ناموں کی پشاور کے مرکزی دفتر کو اطلاع دیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ شکایات موصول ہونے کے بعد ایم ٹی آئی سے ایسے ملازمین کی خدمات واپس لے سکتا ہے۔ ایک علیحدہ اعلامیے (نوٹیفکیشن) میں محکمہ نے ایم ٹی آئی کے تمام ڈائریکٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے سرکاری ملازمین کے ذریعہ سوشل میڈیا کے استعمال کی نگرانی کریں۔

وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے سوشل میڈیا کے محتاط استعمال کے بارے میں اِس سے پہلے بھی سرکاری ملازمین کو رہنما اصول جاری کئے تھے اُور اُنہیں بتایا گیا تھا کہ وہ محکمے کی نیک نامی پر حرف نہ آنے دیں اُور نہ ہی ایسی مخالف مہمات کا حصہ بنیں لیکن ملازمین نے قلمی و فرضی ناموں سے اکاؤنٹس بنا لئے معلوم نہیں کہ اِس مرتبہ مشکل سے کیسے نمٹا جائے گا کیونکہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد بغاوت پر آمادہ ہے جن کے سیاسی عزائم کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ محکمہء صحت پہلے ہی اپنے ملازمین کو ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے سے منع کر چکا ہے اُور اِس سلسلے میں کڑی پابندیاں عائد ہیں‘ جنہیں ملازمین غیرضروری لیکن حکومت ضروری پابندی قرار دیتی ہے۔ بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا پالیسی کی مؤثر ہم آہنگی‘ نگرانی اُور نفاذ کسی ایک صوبائی (حکومتی) محکمے کی حد تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ اِس کا اطلاق ایک مرکزی و بنیادی اصولی حکمت عملی کے طور پر کیا جانا چاہئے تاکہ ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بے بنیاد الزام تراشی اُور اِن الزام تراشیوں کے جواب دینے میں قیمتی وقت اُور وسائل کا ضیاع روکا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: